وَ مَا ہٰذِہِ الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا لَہۡوٌ وَّ لَعِبٌ ؕ وَ اِنَّ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ لَہِیَ الۡحَیَوَانُ ۘ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۶۴﴾

۶۴۔ اور دنیاوی زندگی تو جی بہلانے اور کھیل کے سوا کچھ نہیں اور آخرت کا گھر ہی زندگی ہے، اگر انہیں کچھ علم ہوتا۔

64۔ دنیا کی وہ زندگی جو مرضی رب کے خلاف اختیار کی جاتی ہے وہ بے مقصد زندگی ہے اور خود انسان بھی اس صورت میں نیچر(Nature)کے ہاتھوں ایک کھلونا بن جاتا ہے یعنی اس کا مشقت اٹھانا، بیمار ہونا اور مر جانا سب بے مقصد ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اس کے تمام کاموں کی مقصدیت ایک کھیل سے زیادہ نہیں ہوتی۔ البتہ اگر یہ دنیاوی زندگی آخرت کے لیے مرضی رب کے ساتھ گزار دی جائے تو اس زندگی کا ہر لمحہ نہایت قیمتی بن جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس زندگی کا ایک ایک لمحہ آخرت کی زندگی کے کھربوں سالوں کے لیے تقدیر ساز ثابت ہو سکتا ہے۔

لَہِیَ الۡحَیَوَانُ : آخرت کی زندگی ہی زندگی ہے۔ اس حقیقی اور دائمی زندگی کو بعض اہل تحقیق کے مطابق قرآن نے ایک ہزار سات سو آیات میں بیان فرمایا ہے۔ یعنی قرآن کا ایک تہائی حصہ اس زندگی کو باور کرانے کے لیے ہے۔