آیت 64
 

وَ مَا ہٰذِہِ الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا لَہۡوٌ وَّ لَعِبٌ ؕ وَ اِنَّ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ لَہِیَ الۡحَیَوَانُ ۘ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۶۴﴾

۶۴۔ اور دنیاوی زندگی تو جی بہلانے اور کھیل کے سوا کچھ نہیں اور آخرت کا گھر ہی زندگی ہے، اگر انہیں کچھ علم ہوتا۔

تشریح کلمات

لَہۡوٌ:

( ل ھ و ) اللھو ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو انسان کو اہم کاموں سے ہٹائے اور باز رکھے۔

لَعِبٌ:

( ل ع ب ) بغیر صحیح مقصد کے کوئی کام کرنے کے معنوں میں ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ مَا ہٰذِہِ الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا لَہۡوٌ وَّ لَعِبٌ: دنیا کی وہ زندگی جو مرضی رب کے خلاف اختیار کی جاتی ہے، بے مقصد زندگی ہے اور خود انسان بھی اس صورت میں نیچر(Nature) کے ہاتھوں ایک کھلونا بن جاتا ہے۔ اس زندگی میں اس کا مشقت اٹھانا، بیمار ہونا، زندگی میں ناکامیوں کا سامنا کرنا اور ہر روز پیش آنے والے نشیب و فراز کا مقابلہ کرنا سب بے مقصد ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اس زندگی کے تمام گوشے ایک کھیل سے زیادہ نہیں ہوتے۔ پس اس صورت میں دنیا ایک لہو ہے جو آپ کو اپنے مقصد سے دور رکھتی ہے۔ ایک کھیل ہے جو ایک خیالی مقصد کی طرف لے جاتا ہے۔

۲۔ وَ اِنَّ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ لَہِیَ الۡحَیَوَانُ: آخرت کی زندگی ہی زندگی اور حقیقی و دائمی زندگی ہے جس کے لیے کوئی زوال نہیں ہے۔ اسی لیے قرآن نے سب سے زیادہ اس زندگی کی طرف متوجہ کرنے کے لیے تاکید کی ہے۔

بعض اہل تحقیق کے مطابق قرآن میں ایک ہزار سات سو آیات آخرت کی زندگی کے بارے میں ہیں۔ قرآن کا ایک تہائی حصہ اس زندگی کو باور کرانے کے لیے ہے۔

البتہ دنیا کی زندگی آخرت کے لیے مرضی رب کے مطابق گزاری جائے تو اس دنیا کی زندگی کا ہر لمحہ نہایت قیمتی بن جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس زندگی کا ایک ایک لمحہ آخرت کی زندگی کے کھربوں سالوں کے لیے تقدیر ساز ثابت ہو سکتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ دنیا برائے دنیا کی زندگی آپ کو مقصد سے دور ایک خیالی منزل کی طرف لے جاتی ہے۔

۲۔ دنیا برائے آخرت آپ کا ایک ایک لمحہ قیمتی بنا دیتی ہے۔


آیت 64