وَ مَا یَنۡۢبَغِیۡ لَہُمۡ وَ مَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ﴿۲۱۱﴾ؕ

۲۱۱۔ اور نہ یہ کام ان سے کوئی مناسبت رکھتا ہے اور نہ ہی وہ استطاعت رکھتے ہیں۔

اِنَّہُمۡ عَنِ السَّمۡعِ لَمَعۡزُوۡلُوۡنَ﴿۲۱۲﴾ؕ

۲۱۲۔ وہ تو یقینا (وحی کے) سننے سے بھی دور رکھے گئے ہیں۔

210 تا212 مشرکین کا الزام تھا کہ یہ قرآن محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایک جن نازل کرتا ہے۔ جواب میں فرمایا: مَا یَنۡۢبَغِیۡ لَہُمۡ ۔ نہ قرآن اور جن میں کوئی مناسبت ہے کہ یہ قرآن جنوں سے صادر ہو جائے۔ کیا ممکن ہے کہ ایک گدھے سے حکمت کی باتیں صادر ہو جائیں۔ 2 وَ مَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ ۔ اس بات کا امکان بھی نہیں ہے، جنات کے دائرہ قدرت سے بیرون ہے۔ 3 وہ تو وحی سننے کی بھی اہلیت نہیں رکھتے۔ عَنِ السَّمۡعِ لَمَعۡزُوۡلُوۡنَ ۔

فَلَا تَدۡعُ مَعَ اللّٰہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ فَتَکُوۡنَ مِنَ الۡمُعَذَّبِیۡنَ﴿۲۱۳﴾ۚ

۲۱۳۔پس آپ اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہ پکاریں ورنہ آپ بھی عذاب پانے والوں میں شامل ہو جائیں گے۔

213۔اللہ کے سوا کسی دوسرے معبود کا وجود اگرچہ ایک ایسا مفروضہ ہے جو بذات خود محال ہے، پھر بھی مسئلہ کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے فرض محال بھی کیا جاتا ہے۔

وَ اَنۡذِرۡ عَشِیۡرَتَکَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ﴿۲۱۴﴾ۙ

۲۱۴۔ اور اپنے قریب ترین رشتے داروں کو تنبیہ کیجیے۔

214۔ متعدد راویوں نے یہ واقعہ خود حضرت علی علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ دعوت ذوالعشیرہ کے موقع پر رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے قبیلے کے عزیزوں سے فرمایا: اے اولاد عبد المطلب ! قسم بخدا میں نہیں جانتا کہ عربوں میں سے کسی نے اس چیزسے کوئی بہتر چیز پیش کی ہو جو میں پیش کر رہا ہوں۔ میں دنیا و آخرت دونوں کی بہتری پیش کر رہا ہوں۔ اللہ نے مجھے یہی حکم دیا ہے کہ میں تمہیں دعوت دوں۔ تم میں سے کون ہے جو اس معاملہ میں میرا ساتھ دے؟ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: میں نے عرض کیا: ”میں آپ کا ساتھ دوں گا۔“ حالانکہ میں عمر میں سب سے چھوٹا تھا اس وقت لوگ ہنستے ہوئے چلے گئے۔ (الدرالمنثور) بعض روایات میں آیا ہے کہ حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اے علی! تو میرا وارث، میرا وزیر اور میرے بعد میرا خلیفہ ہے۔ (معالم التنزیل 4: 278۔ تفسیر طبری 19: 74۔ السنن الکبری 9: 7۔ سنن نسائی 6: 248۔ مختلف الفاظ کے ساتھ تفسیر مظہری 8: 370)

وَ اخۡفِضۡ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۲۱۵﴾ۚ

۲۱۵۔ اور مومنین میں سے جو آپ کی پیروی کریں ان کے ساتھ تواضع سے پیش آئیں۔

215۔ یہ حکم رشتہ داروں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، عام مومنین کے لیے ہے۔ جو بھی ایمان لائے اس کے ساتھ تواضع کے ساتھ پیش آئیں۔ اسلامی قیادت کا اپنی رعیت کے ساتھ حاکم و محکوم کا نہیں، تواضع اور محبت کا رشتہ ہوتا ہے۔

فَاِنۡ عَصَوۡکَ فَقُلۡ اِنِّیۡ بَرِیۡٓءٌ مِّمَّا تَعۡمَلُوۡنَ﴿۲۱۶﴾ۚ

۲۱۶۔ اگر وہ آپ کی نافرمانی کریں تو ان سے کہدیجئے کہ میں تمہارے کردار سے بیزار ہوں۔

وَ تَوَکَّلۡ عَلَی الۡعَزِیۡزِ الرَّحِیۡمِ﴿۲۱۷﴾ۙ

۲۱۷۔ اور بڑے غالب آنے والے مہربان پر بھروسہ رکھیں۔

الَّذِیۡ یَرٰىکَ حِیۡنَ تَقُوۡمُ﴿۲۱۸﴾ۙ

۲۱۸۔ جو آپ کو اس وقت دیکھ رہا ہوتا ہے جب آپ (نماز کے لیے) اٹھتے ہیں۔

وَ تَقَلُّبَکَ فِی السّٰجِدِیۡنَ﴿۲۱۹﴾

۲۱۹۔ اور سجدہ کرنے والوں میں آپ کی نشست و برخاست کو بھی۔

219۔ بعثت کے ابتدائی دنوں کی بات معلوم ہو رہی ہے۔ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اللہ کی طرف سے تائید و حوصلہ دیا جا رہا ہے کہ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی تبلیغ رسالت میں اللہ پر توکل کریں، اللہ آپ کو دیکھ رہا ہے، خواہ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اکیلے ہوں یا سجدہ گزاروں میں ہوں۔ بعض روایات کے مطابق اس سے مراد یہ ہے کہ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اللہ اس وقت بھی دیکھ رہا تھا جب آپ کا نور ساجدین کے اصلاب میں پشت در پشت منتقل ہو رہا تھا۔

اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ﴿۲۲۰﴾

۲۲۰۔ وہ یقینا بڑا سننے والا، جاننے والا ہے۔