آیت 214
 

وَ اَنۡذِرۡ عَشِیۡرَتَکَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ﴿۲۱۴﴾ۙ

۲۱۴۔ اور اپنے قریب ترین رشتے داروں کو تنبیہ کیجیے۔

تشریح کلمات

عشیرۃ:

عشیرۃ الرجل قرابتہ: عشیرۃ سے مراد قریبی رشتے دار ہیں چونکہ قریبی رشتہ دار باہم معاشرت کرتے ہیں اس لیے عشیرہ کہا گیا ہے۔

تفسیر آیات

انبیا علیہم السلام تبلیغ و ارشاد کا سلسلہ اپنے قرابتداروں سے شروع فرماتے ہیں۔ الۡاَقۡرَبِیۡنَ میں بنی ہاشم اور بنی عبد المطلب شامل ہیں۔ ( جلالین )

الۡاَقۡرَبِیۡنَ قریبی ترین رشتہ داروں سے دعوت کی ابتدا اس لیے بھی ہو رہی ہے کہ رسولؐ کی حیات میں یہی لوگ سب سے زیادہ رسولؐ کے حامی ہوں گے اور رسولؐ کی حیات کے بعد تبلیغ کا بوجھ اٹھانے والے یہی ہوں گے۔

نیز دعوت اپنے قریبی ترین رشتہ داروں سے شروع کرنے میں یہ راز بھی ہے کہ اگر قریبی لوگوں کو چھوڑ کر دوسرے لوگوں کو دعوت دیتے تو ذہنوں میں ایک سوال اٹھ سکتا تھا کہ اپنے قریبی رشتہ دار چونکہ محمدؐ کو قریب سے جانتے ہیں، اگر یہ دعوت حق پر مبنی ہوتی تو رشتہ داروں کو پہلے دعوت دینا چاہیے تھا۔ رسول اللہؐ کی دعوت یا خود رسول اللہ ؐ میں کوئی کمزوری ہوتی تو قریب سے جاننے والوں سے پرہیز کرتے۔

الۡاَقۡرَبِیۡنَ: قریبی ترین رشتہ دار۔ بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب قریبی ترین شامل ہیں جیسا کہ لفظ عشیرۃ کی تاکید اور مزید وضاحت کے لیے اقربین فرمایا۔

لہٰذا وہ روایات جن میں کہا ہے کہ رسول اللہؐ نے قریش کے تمام قبائل کو بلایا۔ قرآنی صراحت کے خلاف ہے۔ ساتھ ان روایات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس دعوت کے موقع پر تَبَّتۡ یَدَاۤ اَبِیۡ لَہَبٍ وَّ تَبَّ ﴿﴾ (۱۱۱ اللھب:۱) نازل ہوئی ہے اس کے مطابق لازم آتا ہے سورہ شعراء، سورہ تبت سے پہلے نازل ہوا ہو جب کہ ترتیب نزول میں سورہ تبت چھٹا سورہ ہے اور سورہ شعراء ۴۷ واں سورہ ہے۔

شان نزول: عبد اللہ بن عباس حضرت علی علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپؑ نے فرمایا:

جب رسول اللہؐ پر آیہ وَ اَنۡذِرۡ عَشِیۡرَتَکَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ نازل ہوئی تو رسول اللہؐ نے مجھے بلایا فرمایا:

یا علی! اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں قریبی ترین رشتہ داروں کی تنبیہ کروں۔ اس حکم سے میرا دل تنگ ہو گیا۔ مجھے علم تھا کہ میں جب یہ کام شروع کروں گا تو ان کا رد عمل نامناسب ہو گا۔ میں نے خاموشی اختیار کی تو جبرئیل نازل ہوئے اور کہا:

اے محمد! اگر آپ نے یہ کام نہ کیا تو اللہ آپ کو عذاب میں مبتلا کرے گا۔

لہٰذا اے علی! ایک صاع کھانا تیار کرو۔ ایک بھیڑ کی ران اور ایک پیالہ دودھ سے بھر دو۔ پھر عبدالمطلب کے خاندان کے افراد کو جمع کرو کہ میں ان سے بات کروں اور جس چیز کا مجھے حکم ملا ہے وہ ان تک پہنچا دوں۔

میں نے حکم کی تعمیل کی اور سب کو بلایا جو چالیس افراد بنتے تھے۔ ایک کم یا زیادہ ہو سکتا ہے۔ ان میں ان کے چچا عباس، حمزہ، ابوطالب، ابولہب شامل تھے۔ جب یہ سب لوگ جمع ہو گئے تو مجھ سے کھانا پیش کرنے کے لیے فرمایا۔ جب میں نے پیش کیا تو رسول اللہ ؐ نے گوشت کا ایک ٹکڑا لیا اور اپنے دانتوں سے اس کو چیرا پھر اسے برتنوں کے کناروں پر ڈال دیا پھر فرمایا:

لے لو بسم اللہ ۔

چنانچہ سب نے کھایا اور سب سیر ہو گئے۔ جب کہ اس اللہ کی قسم! جس کے قبضے میں علی کی جان ہے جو کھانا میں نے پیش کیا تھا وہ ان کا ایک آدمی کھا سکتا تھا۔ پھر فرمایا:

ان کو پلاؤ۔

پھر میں نے وہ پیالہ پیش کیا تو سب نے پیا اور سب سیراب ہو گئے جب کہ قسم بخدا ان کا ایک آدمی یہ سارا پی سکتا تھا۔ رسول اللہ ؐ نے بات شروع کرنا چاہی تو ابولہب نے پہل کی اور کہا:

تمہارے اس ساتھی نے تو پہلے بھی ایسے جادو کیے ہیں۔

جس سے لوگ متفرق ہو گئے۔ دوسرے دن رسول اللہؐ نے فرمایا:

اے علی! اس شخص نے پہل کی۔ میرے بات کرنے سے پہلے لوگ متفرق ہو گئے۔ تم پہلے کی طرح ان کے لیے کھانا تیار کرو۔

میں نے ایسا کیا اورسب کو جمع کیا۔ گذشتہ کل کی طرح کھانا پیش کیا۔ سب نے سیر ہو کر کھایا اور سیراب ہو کر پیا۔

پھر رسول اللہ نے بات شروع کی۔ فرمایا:

اے عبد المطلب کی اولاد! میں کسی عرب جوان کونہیں جانتا جو اپنی قوم کی طرف اس چیز سے بہتر لے کر آیا ہو جو میں لے کر آیا ہوں۔ میں تمہارے پاس دنیا و آخرت دونوں کی بھلائی لے کر آیا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں آپ لوگوں کو اسی بھلائی کی طرف دعوت دوں۔

آپ میں سے کون ہے جو اس سلسلے میں میرا ہاتھ بٹائے کہ وہ میرا بھائی، میرا وصی اور تمہارے درمیان میرا خلیفہ بن جائے۔

سب رک گئے میں نے کہا:

حالانکہ میں ان سب میں کم سن، آشوب چشم والا، ابھرے شکم والا، نازک پنڈلی والاتھا۔ یا نبی اللہ! میں آپ کا ہاتھ بٹانے والا ہوں گا۔

رسول اللہؐ نے میری گردن پر ہاتھ رکھ کر فرمایا:

ان ھذا اخی و وصیی و خلیفتی فیکم فاسمعوا لہ واطیعوا ۔

یہ میرا بھائی، میرا وصی اور تمہارے درمیان میرا خلیفہ ہے۔ اس کی بات سنو اور اطاعت کرو۔

اس پر لوگ ہنستے ہوئے کھڑے ہوئے اور ابوطالب سے کہا:

تجھے اپنے بیٹے کی بات سننے اور اطاعت کرنے کا حکم دیا ہے۔

یہ حدیث درج بالا الفاظ کے ساتھ طبری نے اپنی تاریخ، تاریخ الامم و الملوک ۲: ۳۱۹ میں اور ابوجعفر اسکافی نے نقض العثمانیۃ ۳۰۳ میں روایت کی ہے اور کہا ہے:

انہ روی فی الخبر الصحیح ۔

اور شہاب الدین خفاجی نے شرح الشفا ۳: ۳۵ میں نقل کیا ہے اور آخر میں کہا ہے:

و قد ذکر دلائل البیھقی وغیرہ بسند صحیح ۔

۲۔ دوسرے الفاظ میں یہ حدیث اس طرح آئی ہے:

فایکم یبایعنی علی ان یکون اخی وصاحبی و وارثی ۔

تم میں کون ہے جومیری اس بات پر بیعت کرے کہ وہ میرا بھائی، میرا ساتھی اور میرے وارث ہو۔

تین بار ان جملوں کی تکرار فرمائی۔ آخر میں علی کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا۔

ان الفاظ میں امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند ۲: ۳۵۷ میں روایت کی ہے اور اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ امام نسائی نے الخصائص اور السنن الکبری ۵:۱۲۵ میں روایت کی ہے۔ ملاحظہ ہو الغدیر ۲: ۳۹۹۔

۳۔ تیسرے الفاظ میں یہ حدیث اس طرح آئی ہے:

من یبایعنی علی ان یکون اخی و صاحبی و ولیکم بعدی۔ فمددت یدی و قلت انا ابایعک ۔

کون میرے ہاتھ اس بات پر بیعت کرے گا کہ وہ میرا بھائی، میرا ساتھی اور میرے بعد تمہارا ولی ہو تو میں نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور کہا: میں آپ کی بیعت کرتا ہوں۔

ان الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے حافظ ابن مردویہ نے جس کا سیوطی نے جمع الجوامع میں ذکر کیا ہے۔ ملاحظہ ہو کنز العمال ۱۳: ۱۷۴

۴۔ چوتھے الفاظ میں یہ حدیث اس طرح منقول ہے:

فقال اجلس فانت اخی و وزیری و وصیی و وارثی و خلیفتی من بعدی ۔

فرمایا: علی بیٹھ جاؤ۔ تو میرا بھائی، میرا وزیر، میرا وصی، میرا وارث اور میرے بعد میرا خلیفہ ہے۔

حافظ ابو حاتم اور حافظ بغوی نے ان الفاظ میں راویت کی ہے۔ ملاحظہ ہو السیرۃ الحلبیۃ ۱: ۲۸۶

۵۔ پانچویں الفاظ میں یہ حدیث اس طرح منقول ہے۔

ثم قال: من یواخینی و یوازرنی و یکون ولیی و وصیی بعدی و خلیفتی فی اہلی یقضی دینی ۔

پھر فرمایا: کون میرا بھائی اور وزیر ہو گا کہ میرے بعد میرا ولی اور وصی اور میرے اہل بیت میں میرا خلیفہ بن جائے اور میرا قرض ادا کرے۔

الکشف والبیان ثعلبی ۷: ۱۸۲ نے یہ روایت بیان کی ہے۔ ملاحظہ ہو کفایۃ الطالب گنجی صفحہ ۲۰۴۔

مصر کے مقتدر ادیب اور شاعر عبدالمسیح انطاکی نے اپنے اشعار میں اس واقعہ کو نظم کیا ہے۔ آخر میں کہتے ہیں:

کذاک حیدرۃ ماشی النبوۃ مذ

وشارک المصطفی من یوم ان وضع الا

نادی بہا المصطفی لبی منادیھا

ساس حتی انتہت علیا مبانیھا

اس طرح حیدر نبوت کے ساتھ چلتے رہے۔ جب بھی مصطفی نے ندا دی آپ نے لبیک کہا۔ جس دن محمد مصطفی نے اس دین کی بنیاد رکھی ہے اس دن سے لے کر اس عمارت کی تکمیل تک آپ مصطفی کے شریک رہے۔

حدیث کی تحریف: طبری نے یہ حدیث اپنی تاریخ میں مکمل بیان کی ہے لیکن اپنی تفسیر میں اس حدیث میں تحریف کر ڈالی۔ چنانچہ علی ان یکون اخی و وصیی وخلیفتی فیکم کے الفاظ میں سے وصیی و خلیفتی فیکم کی جگہ وکذا وکذا لکھ دیا۔ حدیث کے آخر میں بھی ان ھذا اخی کے بعد وصی اور خلیفتی کی جگہ وکذا وکذا لکھ دیا۔

ابن کثیر اپنے مصادر میں تاریخ طبری کو سر فہرست رکھتے ہیں لیکن اس حدیث کی نقل میں تاریخ طبری کی جگہ تفسیر طبری کی تحریف شدہ روایت انہیں زیادہ پسند آئی اور اپنی تاریخ البدایۃ والنھایۃ ۳: ۵۳ میں اور تفسیر میں وصیی وخلیفتی کی جگہ وکذا وکذا لکھ دیا۔

آیت میں تحریف: صحیح مسلم میں ابن عباس سے روایت ہے کہ یہ آیت اس طرح نازل ہوئی:

وانذر عشیرتک الاقربین و رھطک منہم المخلصین ۔ کہتے ہیں پھر نسخ ہو گئی۔

شاید آیت پہلے نازل ہوئی پھر اس کی تلاوت منسوخ ہو گئی پھر اس کا ایک حصہ سورہ شعراء میں دوبارہ نازل ہوا ہے۔ ( التحریر والتنویر ۱۹: ۲۰۵)

تفسیر قرطبی میں کہا ہے:

و ظاہر ھذا انہ کان قرانا یتلی و انہ نسخ ۔

اس سے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ( و رھطک منہم المخلصین ) قرآن کا حصہ تھا اور تلاوت بھی ہوتی تھی جو بعد میں نسخ ہو گیا۔

اس قسم کی روایات کے تحت اس قسم کی عبارتوں کو اہل سنت کے علماء قرآن کا حصہ تسلیم کرتے ہیں۔ پھر نظریہ نسخ تلاوت کے ذریعہ منسوخ فرض کرتے ہیں۔

ہم نے مقدمہ میں وضاحت سے لکھا ہے کہ اس قسم کی روایات میں اہل تشیع اور اہل سنت کے موقف میں بنیادی فرق یہ رہا ہے کہ شیعہ ایسی روایات کے تحت اس قسم کی عبارتوں کو قرآن کا حصہ نہیں سمجھتے اور ان عبارتوں کو قرآن تسلیم کرنے سے پہلے توجیہ تاویل یا مسترد کرتے ہیں۔ اہل سنت ایسی عبارتوں کو قرآن کا حصہ تسلیم کرنے کے بعد ایک متنازعہ نظریے کے تحت منسوخ سمجھتے ہیں۔ وہ متنازعہ نظریہ نسخ تلاوت ہے۔ پہلے بھی ذکر ہو چکا نسخ تلاوت ایک مفروضہ ہے، اس پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ نسخ تلاوت ثابت نہ ہونے کی صورت میں اس قسم کی عبارتیں قرآن کا حصہ رہتی ہیں۔ اس سے تحریف قرآن لازم آتی ہے۔

ایک اعتراض اور اس کا جواب

اعتراض: کیا ایک نابالغ بچے کو وصی، وارث اور خلیفہ بنایا جاتا ہے؟ کیا بزرگوں کو دعوت دینے کے لیے ایک بچے سے کام لیا جاتا ہے؟ کیا رسول اللہ ایک بچے کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اس سے بیعت لے سکتے ہیں ؟

جواب: کیا حضرت علی علیہ السلام غیر مکلف، غیر عاقل تھے؟ تو کیا رسول اللہؐ نے ایک غیر مکلف اور غیر عاقل کو ایمان کی دعوت دی؟ کیا رسول اللہؐ نے علی علیہ السلام کے ایمان کو قبول نہیں کیا؟ اگر دعوت دی ہے توکیا یہ دعوت بحکم خدا تھی یا ذاتی خواہش پر؟

چونکہ رسول اللہ ؐ نے علی علیہ السلام کے علاوہ کسی بچے کو اسلام کی دعوت نہیں دی لہٰذا علی علیہ السلام حضرت آدم علیہ السلام کی طرح ہیں کہ وجود میں آنے کے فوراً بعد ایمان لے آئے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح کہ ابھی ایک دن کے تھے، اپنی نبوت کا اعلان کیا اور حضرت یحییٰ علیہ السلام کی طرح ہیں جنہیں طفولیت میں حکمت دے دی گئی اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرح ہیں جو گیارہ سال کی عمر میں حضرت داود علیہ السلام کے جانشین ہوئے۔


آیت 214