یَکَادُ الۡبَرۡقُ یَخۡطَفُ اَبۡصَارَہُمۡ ؕ کُلَّمَاۤ اَضَآءَ لَہُمۡ مَّشَوۡا فِیۡہِ ٭ۙ وَ اِذَاۤ اَظۡلَمَ عَلَیۡہِمۡ قَامُوۡا ؕ وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ لَذَہَبَ بِسَمۡعِہِمۡ وَ اَبۡصَارِہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿٪۲۰﴾
۲۰۔ قریب ہے کہ بجلی ان کی آنکھیں سلب کر لے، جب وہ ان کے لیے چمک دکھاتی ہے تو وہ اس کی روشنی میں چل پڑتے ہیں اور جب تاریکی ان پر چھا جاتی ہے تو وہ رک جاتے ہیں اور اللہ اگر چاہتا تو ان کی سماعت اور بینائی (کی طاقت) سلب کر لیتا، بلاشبہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
19۔ 20۔ منافقین ایسے ماحول میں رہتے ہیں جس میں چار سو تاریکیاں ہیں اور بجلی کی گرج چمک، جہاں ہر وقت موت سروں پر منڈلاتی نظر آتی ہے۔ وہ ذہنی اضطراب سے بچنے کے لیے کانوں میں انگلیاں دے لیتے ہیں، جیسا کہ آج کا مضطرب انسان نشے اور خواب آور گولیوں کا سہارا لیتا ہے۔
قرآن ایک حیات آفرین اور حیات ساز دستور ہونے کے لحاظ سے مومنین کی فکری اور شعوری تربیت کر رہا ہے تاکہ مومنین اپنے ارد گرد کے مختلف افراد کے ساتھ مناسب روش اختیار کریں۔ منافقین کی نفسیاتی پریشانی، ذہنی اضطراب، اخلاقی پستی اور برے عزائم کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ یہ لوگ اللہ اور مومنین کو دھوکا دیتے ہیں۔ ان کے دل مریض ہیں، یہ معاشرتی اصلاح کی آڑ میں اجتماعی فساد پھیلاتے ہیں، تکبر اور احساس برتری جیسے موذی نفسیاتی امراض میں مبتلا ہیں اور اہل ایمان کو حقیر سمجھتے ہیں۔