مَثَلُہُمۡ کَمَثَلِ الَّذِی اسۡتَوۡقَدَ نَارًا ۚ فَلَمَّاۤ اَضَآءَتۡ مَا حَوۡلَہٗ ذَہَبَ اللّٰہُ بِنُوۡرِہِمۡ وَ تَرَکَہُمۡ فِیۡ ظُلُمٰتٍ لَّا یُبۡصِرُوۡنَ﴿۱۷﴾

۱۷۔ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے(تلاش راہ کے لیے) آگ جلائی، پھر جب اس آگ نے گرد و پیش کو روشن کر دیا تو اللہ نے ان کی روشنی سلب کر لی اور انہیں اندھیروں میں (سرگرداں) چھوڑ دیا کہ انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔

16 ۔ 17۔ منافقین کے سیاہ اعمال کے تذکرے کے بعد اب ان کے نتائج بیان ہو رہے ہیں کہ ان لوگوں نے احمقانہ سودا کیا۔ ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی اور سو فیصد گھاٹے میں رہے۔ اسی لیے وہ نفسیاتی طور پر پریشان رہتے ہیں۔ خداوند کریم نے منافقین کے اس اندرونی انتشار اور نفسیاتی الجھن کی تصویر کشی کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کی حالت اس شخص کی سی ہے، جسے روشنی حاصل کرنے کے مواقع حاصل ہوئے اور اس نے ارد گرد دیکھا اور اشیاء کے نفع و ضرر سے آگاہی حاصل کی ہی تھی کہ یکایک یہ روشنی چھن گئی اور چاروں طرف گھٹا ٹوپ اندھیرا چھا گیا۔ ایسا شخص احساس محرومی سے بہت زیادہ دو چار ہوتا ہے بہ نسبت اس شخص کے جس نے روشنی دیکھی ہی نہیں اور پہلے سے اندھیرے میں ہے۔