آیت 13
 

وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ اٰمِنُوۡا کَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوۡۤا اَنُؤۡمِنُ کَمَاۤ اٰمَنَ السُّفَہَآءُ ؕ اَلَاۤ اِنَّہُمۡ ہُمُ السُّفَہَآءُ وَ لٰکِنۡ لَّا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۳﴾

۱۳۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ دیگر لوگوں کی طرح تم بھی ایمان لے آؤ تو وہ کہتے ہیں: کیا ہم (بھی ان) بیوقوفوں کی طرح ایمان لے آئیں؟ یاد رہے! بیوقوف تو خود یہی لوگ ہیں لیکن یہ اس کا (بھی) علم نہیں رکھتے۔

تشریح کلمات

السُّفَہَاۗءُ:

( س ف ہ ) خفت اور ہلکا پن۔ رومی کپڑے کو اس کی نزاکت کی وجہ سے ثوب سفیہ کہتے ہیں۔ احمق اور بیوقوف آدمی کو عقل کی خفت اور ہلکے پن کی وجہ سے سفیہ کہا جاتا ہے۔

تفسیر آیات

منافقین کی چوتھی علامت یہ ہے کہ وہ مؤمنین کو معاشرے کا ادنیٰ طبقہ سمجھتے اور یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ صرف بیوقوف لوگ ہی انبیاءؑ پر ایمان لاتے ہیں۔ یہ نظریہ سابقہ انبیاءؑ کی امتوں کے بارے میں بھی قائم کیا جاتا رہا ہے۔ حضرت نوح (ع) کی امت کے بارے میں کافر کہتے تھے :

قَالُـوْٓا اَنُؤْمِنُ لَكَ وَاتَّبَعَكَ الْاَرْذَلُوْنَ۝۱۱۱ۭ {۲۶ شعراء: ۱۱۱}

انہوں نے کہا: ہم تم پر کیسے ایمان لے آئیں جب کہ ادنیٰ درجے کے لوگ تمہارے پیروکار ہیں۔

اور آج کل بھی اہل دین کے ساتھ یہی رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے انہیں ارذل یا سفہاء کہا جاتا تھا اور آج کل رجعت پسند، جمود پسند یا قدامت پرست وغیرہ کہا جاتا ہے۔

خالق فرماتا ہے کہ چند روزکے دنیاوی مفاد کی خاطر ابدی زندگی تباہ کرنے والے لوگ ہی درحقیقت احمق ہیں۔

اہم نکات

۱۔ منافق لوگ دینداروں کو احمق و حقیرجب کہ اپنے آپ کو عاقل اور ان سے برتر سمجھتے ہیں۔

۲۔ دیرپا اور حقیقی فائدے کو چھوڑ کر وقتی اور عارضی مفادات کے پیچھے جانا ہی اصل حماقت ہے۔

۳۔ منافقین اہل ایمان کی تحقیر کے لیے ہردور میں نت نئے حربے استعمال کرتے آئے ہیں۔

۴۔ حبّ دنیا عقل و دل اور نظریات پر پردہ ڈال دیتی ہے۔


آیت 13