آیات 14 - 15
 

وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قَالُوۡۤا اٰمَنَّا ۚۖ وَ اِذَا خَلَوۡا اِلٰی شَیٰطِیۡنِہِمۡ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا مَعَکُمۡ ۙ اِنَّمَا نَحۡنُ مُسۡتَہۡزِءُوۡنَ﴿۱۴﴾

۱۴۔اور جب وہ ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم ایمان لے آئے ہیں اور جب اپنے شیطانوں کے ساتھ تخلیے میں ہوتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم تو تمہارے ساتھ ہیں، (ان مسلمانوں کا تو) ہم صرف مذاق اڑاتے ہیں۔

اَللّٰہُ یَسۡتَہۡزِئُ بِہِمۡ وَ یَمُدُّہُمۡ فِیۡ طُغۡیَانِہِمۡ یَعۡمَہُوۡنَ﴿۱۵﴾

۱۵۔اللہ بھی ان کے ساتھ تمسخر کرتا ہے اور انہیں ڈھیل دیتا ہے کہ یہ اپنی سرکشی میں سرگرداں رہیں گے۔

تشریح کلمات

شیاطین:

شیطان کی جمع۔ یہ شطن سے ماخوذ ہے، جو حق سے دوری اختیار کرنے کے معنی میں آتا ہے۔ ابلیس کو بھی شیطان کہتے ہیں۔ لیکن ہر شیطان ابلیس نہیں ہوتا۔ اس آیت میں انسانی شیاطین کا ذکر ہے۔

مُسۡتَہۡزِءُوۡنَ:

( ھ زء ) استہزاء۔ مذاق اڑانا، تمسخر کرنا۔ مُسْتَہْزِئُ وْن استہزاء سے اسم فاعل ہے۔ یعنی مذاق اڑانے والے۔

طغیان:

سرکشی کرنا۔حد سے تجاوز کرنا۔ اس لیے اخلاقی و انسانی حدود سے تجاوز کرنے والے کو طاغوت کہتے ہیں۔

یَعۡمَہُوۡنَ:

( ع م ہ ) عمہ یعنی سرگرداں۔

تفسیر آیات

سازش اور تمسخر: منافقین کی پانچویں علامت یہ ہے کہ وہ داخلی طور پر کچھ ہوتے ہیں اورخارجی طرز عمل کچھ اور رکھتے ہیں۔ درون خانہ یہ لوگ دشمنوں سے وابستہ ہوتے ہیں: اِنَّا مَعَکُمۡ اور مسلمانوں سے ملاقات کے وقت اٰمَنَّا کہکر ان کے ہم خیال بنتے ہیں اوراپنے حقیقی ہم خیال ساتھیوں کو یہ تسلی دیتے ہیں کہ ہم تو مسلمانوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ خالق فرماتا ہے : اَللّٰہُ یَسۡتَہۡزِئُ بِہِمۡ ۔ البتہ اللہ تعالیٰ کا تمسخر یہ ہے کہ تمسخر کرنے والے جس سزا کے مستحق ہیں، وہ سزا انہیں دیتا ہے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ جب منافقین نے مؤمنین سے تمسخر کیا تو اللہ نے مؤمنین سے یہ نہیں فرمایا کہ تم بھی منافقین کے تمسخر کا جواب تمسخر سے دو، جیسا کہ حضرت نوح (ع) نے فرمایا:

اِنۡ تَسۡخَرُوۡا مِنَّا فَاِنَّا نَسۡخَرُ مِنۡکُمۡ کَمَا تَسۡخَرُوۡنَ ﴿﴾ ۔ {۱۱ ہود :۳۸}

اگر آج تم ہمارا مذاق اڑاتے ہو تو کل ہم اسی طرح تمہارا مذاق اڑائیں گے، جیسے تم مذاق اڑاتے ہو۔

بلکہ امت محمدی (ص) سے تمسخر کرنے پر ذات احدیت کو منافقین پر جلال آیا اور فرمایا کہ اس تمسخر کا جواب میں خود دوں گا: وَ یَمُدُّہُمۡ فِیۡ طُغۡیَانِہِمۡ اور خدائی تمسخر کا طریقہ یہ ہے کہ ان منافقین کو سرکشی میں ڈھیل دے کر مزید تباہی سے دوچار کر دیا جائے، جیسا کہ ایک جگہ ارشاد قدرت ہے:

وَ لَا یَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنَّمَا نُمۡلِیۡ لَہُمۡ خَیۡرٌ لِّاَنۡفُسِہِمۡ ؕ اِنَّمَا نُمۡلِیۡ لَہُمۡ لِیَزۡدَادُوۡۤا اِثۡمًا ۚ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ﴿﴾ ۔ {۳ آل عمران: ۱۷۸}

اور کافر لوگ یہ گمان نہ کریں کہ ہم انہیں جو ڈھیل دے رہے ہیں وہ ان کے لیے بہتر ہے۔ ہم تو انہیں صرف اس لیے ڈھیل دے رہے ہیں تاکہ یہ لوگ اپنے گناہوں میں اور اضافہ کر لیں اور آخرکار ان کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہو گا۔

فَنَذَرُ الَّذِیۡنَ لَا یَرۡجُوۡنَ لِقَآءَنَا فِیۡ طُغۡیَانِہِمۡ یَعۡمَہُوۡنَ﴿﴾ ۔ {۱۰یونس: ۱۱}

لیکن جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے ہم انہیں مہلت دیے رکھتے ہیں کہ وہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں۔

اہم نکات

۱۔ سازش اور دو روئی منافقت ہے۔

۲۔ خدا نے منافقین کے تمسخر کاجواب ان کی سرگردانی کی شکل میں دیاہے۔

۳۔ اہل حق کے ساتھ ظاہرداری اور باطل طاقتوں کے ساتھ خفیہ اور صمیمانہ تعلقات رکھنا نفاق کی علامت ہے۔

۴۔ شیاطین ہی منافق کی پشت پناہی کرتے ہیں۔

تحقیق مزید: بحار الانوار ۶ : ۵۱


آیات 14 - 15