آیات 19 - 20
 

اَوۡ کَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیۡہِ ظُلُمٰتٌ وَّ رَعۡدٌ وَّ بَرۡقٌ ۚ یَجۡعَلُوۡنَ اَصَابِعَہُمۡ فِیۡۤ اٰذَانِہِمۡ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الۡمَوۡتِ ؕ وَ اللّٰہُ مُحِیۡطٌۢ بِالۡکٰفِرِیۡنَ﴿۱۹﴾

۱۹۔ یا جیسے آسمان سے بارش ہو رہی ہو جس میں تاریکیاں اور گرج و چمک ہو، بجلی کی کڑک کی وجہ سے موت سے خائف ہو کر وہ اپنی انگلیاں کانوں میں دے لیتے ہیں، حالانکہ اللہ کافروں کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔

یَکَادُ الۡبَرۡقُ یَخۡطَفُ اَبۡصَارَہُمۡ ؕ کُلَّمَاۤ اَضَآءَ لَہُمۡ مَّشَوۡا فِیۡہِ ٭ۙ وَ اِذَاۤ اَظۡلَمَ عَلَیۡہِمۡ قَامُوۡا ؕ وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ لَذَہَبَ بِسَمۡعِہِمۡ وَ اَبۡصَارِہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿٪۲۰﴾

۲۰۔ قریب ہے کہ بجلی ان کی آنکھیں سلب کر لے، جب وہ ان کے لیے چمک دکھاتی ہے تو وہ اس کی روشنی میں چل پڑتے ہیں اور جب تاریکی ان پر چھا جاتی ہے تو وہ رک جاتے ہیں اور اللہ اگر چاہتا تو ان کی سماعت اور بینائی (کی طاقت) سلب کر لیتا، بلاشبہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

تشریح کلمات

صیب:

( ص و ب ) برسنے والا بادل۔ بار بار برسنے والی بارش۔

الصَّوَاعِقِ:

( ص ع ق ) صاعقہ کی جمع۔ خوفناک آواز۔ آسمان سے گرنے والی بجلی، آتش اور موت کو بھی صعق کہتے ہیں۔

يَخْطَفُ:

( خ ط ف ) اچک لینا۔ تَخْطَفُہُ الطَّیْرُ پرندہ اسے اچک کر لے جائے۔

تفسیر آیات

دوسری مثال میں منافقین کی حالت کو اور زیادہ وحشت ناک انداز میں بیان کیا گیا ہے۔سابقہ آیت میں منافق کی انفرادی حالت کی تصویرکشی ہوئی تھی، لیکن اب منافقین کے اجتماعی ماحول کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ گویا وہ ایسے ماحول میں رہتے ہیں جس میں چہار سو تاریکیاں ہیں اور بجلی کی گرج و چمک ہے۔ جہاں ہر وقت موت سروں پر منڈلاتی نظر آتی ہے۔ یعنی منافقین کی نفسیاتی حالت مضطرب اور تشویش ناک ہے، انہیں ہرگز امن و سکون نصیب نہیں ہوتا۔ وہ اس کے حصول کے لیے وقتی اور ظاہری کاوش کرتے ہیں اور اسی عارضی سکون پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے وہ ذہنی اضطراب سے بچنے کے لیے کانوں میں انگلیاں دے لیتے تھے اور آج کل کے ترقی یافتہ معاشرے میں نشہ آور اور خواب آور گولیوں کا سہارا لیتے ہیں اور وقتی سکون پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔

قرآن ایک حیات آفرین اور حیات ساز دستور ہونے کے لحاظ سے مؤمنین کی فکری اور شعوری تربیت کر رہا ہے تاکہ مؤمنین اپنے ارد گرد کے مختلف افراد کے ساتھ مناسب روش اختیار کریں۔ منافقین کی نفسیاتی پریشانی، ذہنی اضطراب، اخلاقی پستی اور برے عزائم کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ یہ لوگ اللہ اور مؤمنین کو دھوکا دیتے ہیں۔ ان کے دل مریض ہیں، یہ معاشرتی اصلاح کی آڑ میں اجتماعی فساد پھیلاتے ہیں، تکبر اور احساس برتری جیسے موذی نفسیاتی امراض میں مبتلا ہیں اور اہل ایمان کو حقیر سمجھتے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ نزول وحی کو منافقین اپنی موت تصور کرتے تھے: حَذَرَ الْمَوْتِ ۔۔۔

۲۔ اندرونی کیفیت کے باوصف منافق کی زندگی میں نظر آنے والی ظاہری خوشی اورسکون عارضی ہے۔

۳۔ مومن کو ہمیشہ اپنے اس ازلی اور خفیہ دشمن (منافق) سے ہوشیار رہنا چاہیے۔


آیات 19 - 20