تفسیر قرآن سورہ ‎البقرۃ آیات 10 - 13

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ ۙ فَزَادَہُمُ اللّٰہُ مَرَضًا ۚ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌۢ ۬ۙ بِمَا کَانُوۡا یَکۡذِبُوۡنَ﴿۱۰﴾
منافقین کی ایک صفت یہ ہے، خاصیت یہ ہے کہ ان کے دلوں میں بیماری ہے۔ پس اللہ نے ان کی بیماری اور بڑھا دی، اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے اس وجہ سے کہ وہ جھوٹ بولا کرتے تھے۔ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ ان کے دلوں میں بیماری ہے یہ نہیں فرمایا: قلوبھم مرضاءان کے دل بیمار ہے بلکہ فرمایا فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ ان کے دلوں میں بیماری رچی بسی ہے۔ یہ بتانے کے لئے کہ ان کے دل قابل معالجہ، قابل اصلاح نہیں ہے۔ بیماری نے ان کے دل میں جگہ بنا لی ہے۔ دوسری بات یہاں پر ہی مناسب ہے کہ دل کے بارے میں ہم تشریح کریں۔ دل فزیکل اعتبار سے تو اس عضو کو کہا جاتا ہے جو خون پمپ کرتا ہے، اس سے انسان کی زندگی بر قرار رہتی ہے اور جسم کے تمام اجزاء تک کون پہنچاتا ہے۔ یہ دل ہے فزیکل اعتبار سے دل ہے۔ محاورے میں خواہ عربی محاورہ ہو یا ہماری اردو محاورہ ہو محاورہ میں دل سے مراد وہ عضو صنوبری نہیں ہے جو خون پمپ کرتا ہے۔ بلکہ دل سے مراد روح ہے، وہ قوت ہے جس کے پاس تمام جسم کے انسانی قوت جو ہے اس کے لئے مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ جس قوت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، اس قوت کو روح کہتے ہے، اس قوت کو قلب کہتے ہیں۔ حتی کہ بعض اہل تحقیق کے نزدیک روح بھی اس قوت کا مال ہے۔ روح سے بھی آگے، روح بھی جس چیز کے لئے حاصل ہے وہ قوت قلب ہے۔ اسی لئے فرمایا کہ وحی جو ہے وہ قلب رسول پر نازل ہوتا ہے۔ کسی اعضاء سماعت، اعضاء بصارت انسان کے جو حواس ہیں ان میں سے کسی ایک حصے پر نہیں بلکہ اس مرکزی قوت کے اوپر وحی نازل ہوتی ہے جس کو قلب کہتے ہیں۔ قلب مثلاً قلب لشکر کہتے ہیں لشکر کا مرکزی حصہ، لشکر کے مرکزی جگہ کو قلب لشکر کہتے ہیں۔ اسی طرح انسان کے مرکزی قوت ہے اس کو قلب کہتے ہیں، یعنی دوسرے لفظوں میں ہم کہ سکتے ہیں کہ ان کی روح بیمار ہے، ان کی روح بیمار ہے نہیں فرمایا بلکہ ان کی روح میں بیماری رچی بسی ہے۔
بیمار جب ہوتا ہے، حدیث میں آیا ہے اَلَا وَ اِنَّ مِنَ الْبَلَائِ اَلْفَاقَۃُ سب سے المیہ جو ہے محتاج ہے، احتیاج جو سے سب سے بڑا المیہ ہے وَ اَشَدُّ مِنَ الْفَاقَۃِ مَرَضُ الْبَدَنِ فاقہ سے زیادہ مشکل جسم کی بیماری ہے وَ اَشَدُّ مِنْ مَرَضِ الْبَدَنِ مَرَضُ الْقَلْب اور جسم کی بیماری سے دل کی بیماری بدتر ہے۔ جسم کی بیماری کے ساتھ تشبیہ دی ہے ایک تعبیر ہے اس بیماری کا لفظ چونکہ بیمار جب بیمار ہوتا ہے تو جسم کی بیماری کو ہم مثال میں لاتے ہیں۔ بیمار جب بیمار ہوتا ہے تو اس وقت جسم کا نظام درہم برہم ہوتا ہے۔ جسم کا اعتدال جو ہے وہ اپنی جگہ پر نہیں ہوتا، اعتدال ختم ہو جاتا ہے، بہترین کھانا بھی قابل ہضم نہیں ہوتا، بدن کا حصہ نہیں ہوتا، بہترین شربت پیو پھر بھی الٹی ہو جاتی ہے یا جسم اس کو اپنا حصہ نہیں بناتا، کوئی بھی چیز اس کے لئے گوارا نہیں ہوتا۔ جس کی روح بیمار ہے اس کا بھی یہی حال ہوتا ہے کہ بہترین ہدایت کی باتیں، آخرت کی باتیں اس کے لئے دین و دنیا کی سعادت کی باتیں قابل ہضم نہیں ہوتیں اور دل کے بیمار کو اگر آپ نصیحت کر دیں تو وہ بڑے نخرے سے آپ کی نصیحت ٹھکرا دیتا ہے اور کسی قسم کی تعمیری بات کو وہ اپنی روح یا اپنے نفس کی تعمیر کے لئے اس کو حصہ بنانے کے لئے آمادہ نہیں ہوتا۔ اس کو وہ مسترد کر دیتا ہے۔ اس لئے ان کو کہا ہے کہ ان کے دلوں میں بیماری ہے۔ منافق کی علامات میں سے ایک علامت ہے کہ وہ تعمیری باتوں کو نصیحت کی باتوں اس کی دنیا اور آخرت کے فائدے کی باتوں کو قبول نہیں کرتا ہے رد کرتا ہے۔
آگے فرمایا فَزَادَہُمُ اللّٰہُ مَرَضًا اللہ نے ان کی بیماری میں اور زیادہ کردیا۔ پہلے بھی عرض کیا ہے کہ اس بات کی تشریح جو ہے وہ بہت ضروری ہے، بات واضح ہونی ضروری ہے کہ خدا ان کے دلوں میں از خود بیماری زیادہ نہیں کرتا بلکہ جب ان کے دلوں میں بیماری ہے وہ قابل ہدایت نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔ جب اللہ ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہے یہ چھوڑ دینا سبب بنتا ہے ان کی بیماری میں اضافہ ہونے کا۔ اس لئے ان کی بیماری میں اضافہ کیوں ہوا؟ اضافہ اس لئے ہوا کہ اللہ نے علاج کرنا چھوڑ دیا، جب اللہ نے علاج کرنا چھوڑ دیا تو اس چھوڑنے کی وجہ سے بیماری میں اضافہ ہوگیا، فَزَادَہُمُ اللّٰہُ مَرَضًا اللہ ان کی بیماری بڑھا دی، یعنی بڑھنے دیا۔ مثبت طریقے میں بھی یہی ہے والذین اھتدو ا ذاھم ھدی جن لوگوں نے ہدایت حاصل کی ہے ان کی ہدایت میں اضافہ ہو گیا، اللہ تعالیٰ نے اضافہ کردیا۔ یعنی جن لوگوں نے ہدایت حاصل کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ہدایت کا سلسلہ جاری رکھا تو ان کی ہدایت میں اضافہ ہوگیا۔ ان لوگوں نے ہدایت حاصل نہیں کی دل کی بیماری کی وجہ سے تو اللہ نے ان کے لئے ہدایت روک دیا۔ ان کی دل کی بیماری کا علاج نہیں کیا جب دل کی بیماری کا علاج اللہ تعالیٰ نے نہیں کیا فَزَادَہُمُ اللّٰہُ مَرَضًا اللہ نے ان کی بیماری، البتہ یہ بھی ہے کہ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ پہلے ان کے دل میں بیماری ہے اس میں، ان لوگوں نے خود اپنی طرف سے اپنی خود مختاری سے اس مرض کو پیدا کیا اپنے دلوں میں۔ پھر اس کے بعد علاج کے لئے معالجہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہادیان برحق بھیجے اور وہ قابل علاج نہ رہے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا تو ان کی بیماری میں اضافہ ہوا۔ اس اضافہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب اس لئے کیا کہ اللہ تعالیٰ نے کے علاج و معالجہ کو ترک کیا اس وجہ سے اضافہ ہو گیا وَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌۢ ۬ۙ بِمَا کَانُوۡا یَکۡذِبُوۡنَ اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے، کیوں دردناک عذاب ہے؟ اس وجہ سے دردناک عذاب ہے کہ وہ جھوٹ بولا کرتے تھے۔ جھوٹ ایک تو عام انسان جھوٹ بولتا ہے اس کے لئے اگرچہ کہتے ہے کہ مومن جھوٹ نہیں بولتا، مومن کی علامات میں سے ایک یہ ہے کہ مومن جھوٹ نہیں بولتا۔ بلکہ روایات میں ہے کہ مومن وہ ہے سنجیدہ حالت میں بھی اور مذاق کی حالت میں بھی جھوٹ نہیں بولتا۔ لیکن یہاں یہ جو جھوٹ ہے وہ منافقوں کا جو جھوٹ ہے، وہ مراد ہے، ہر جھوٹ مراد نہیں ہے۔ منافق کس چیز میں جھوٹ بولتا ہے؟ منافق اپنے ایمان کے بارے میں جھوٹ بولتا ہے، کہ وہ اپنے آپ کو مومن کہتا ہے جبکہ وہ مومن نہیں ہے۔ دل سے اس کے پاس ایمان نہیں ہے، اس کے با وجود وہ اپنے آپ کو مومن کہتے ہے۔ کذب فی الایمان ایمان کے بارے میں جھوٹ بولتے تھے اس وجہ سے اس جھوٹ کے عوض میں، منافقت عبارت ہے جھوٹ ہی سے وہ مومن نہیں اپنے آپ کو مومن جتلاتا ہے۔
وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ لَا تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّمَا نَحۡنُ مُصۡلِحُوۡنَ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ پھیلاو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کر رہے ہیں۔ منافقین کی ایک خاصیت یہ ہے کہ وہ مفسد فی الارض ہوتے ہیں۔ زمین میں فساد پھیلاتے ہیں۔ فساد اصلاح کے مقابلے میں ہے یعنی جہاں لوگ بہترین صورت حال میں ہے وہاں وہ بیچ میں جا کر کے فساد پھیلاتے ہیں معاشرے کے نظام میں خلل ڈالتے ہیں۔ کوئی حالت جنگ ہو، حالت امن ہو، یہ افواہیں پھیلاتے ہیں۔ ان افواہوں کے ذریعے مومنین میں بددلی پیدا کر دیتے ہیں، معاشرے میں خرابی پیدا کرتے ہیں، جب ان سے کہا جاتا ہے قیل کہا جاتا ہے، کہنے والے کا ذکر نہیں ہوا اس لئے کہ ہر کوئی کہتا ہے کہ یہ فساد پھیلانے والی باتیں نہ کرو، معاشرے میں گڑبڑ پیدا نہ کرو، تو وہ کہتے ہیں: نہیں ہم تم کو صورت حال سے آگاہ کر رہے ہیں، کیا صورت حال؟ کہیں تم لوگ دھوکے میں نہ رہے ہم تمہارے مفاد میں بات کرتے ہیں ہم کل معاشرے کی مصلحت میں بات کرتے ہیں، کہ واقعہ اس طرح ہو رہا ہے یہ ہو رہا ہے وہ ہو رہا ہے۔ اس طرح وہ زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور اس فساد کو وہ اصلاح کا نام دیتے ہیں۔ ہر مفسد اور ہر سازش کار اپنے کام کے لئے ایک توجیہ رکھتا ہے۔ وہ ایک نعرہ درست کرتے ہیں سادہ لوح لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے اور اس نعرہ کے فریب میں سادہ لوگ آ جاتے ہیں اور اسی نعرہ کے تحت اسی کے اندر اس کے زیر اثر لے آتے ہیں کچھ لوگوں کو اور اپنا فساد پھیلاتے ہیں۔ منافق کی علامات میں سے ایک علامت یہ ہے کہ وہ ایک اصلاحی نعرہ لگاتے ہیں ایک دل فریب نعرہ درست کرتے ہیں اور اس دل فریب نعرہ کے نیچے اپنی سازش جو ہے وہ بروے کار لاتے ہیں۔ قرآن فرماتا ہے اَلَاۤ اِنَّہُمۡ ہُمُ الۡمُفۡسِدُوۡنَ وَ لٰکِنۡ لَّا یَشۡعُرُوۡنَ
اَلَاۤ حرف تنبیہ کہتے ہیں، خبردار! اَلَاۤ ان کے اصلاحی نعروں میں نہ آئے، ان کے دھوکہ میں فریب میں نہ آئے۔ آگاہ رہو یہ لفظ اَلَاۤآگاہ رہو خبردار کہنا دلیل ہے اس بات کی کہ ان کے نعرے دل فریب ہوتے ہیں۔ ان کے نعرہ جو ہے اس میں سادہ لوح مسلمان گرفتار ہو جاتے ہیں اس لئے خصوصی طور پر فرمایا: اَلَاۤ آگاہ رہو اِنَّہُمۡ ہُمُ الۡمُفۡسِدُوۡنَ یہ اصلاحی نعرے غلط ہے یہ لوگ فساد پھیلانے والے ہیں وَ لٰکِنۡ لَّا یَشۡعُرُوۡنَ وہ خود بھی سمجھتے ہیں کہ ہم فساد پھیلانے والے نہیں ہیں ہم تو اصلاحی لوگ ہیں۔ یہ غیر شعوری طور پر اپنے آپ کو اصلاحی کہتے ہیں۔
وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ اٰمِنُوۡا کَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوۡۤا اَنُؤۡمِنُ کَمَاۤ اٰمَنَ السُّفَہَآءُ ؕ اَلَاۤ اِنَّہُمۡ ہُمُ السُّفَہَآءُ وَ لٰکِنۡ لَّا یَعۡلَمُوۡنَ ایک خاصیت ان کی یہ ہے کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ایمان لے آو، سچا ایمان لے آو، صدق دل سے ایمان لے آؤ، تو وہ کہتے ہیں َقَالُوۡۤا اَنُؤۡمِنُ کَمَاۤ اٰمَنَ السُّفَہَآءُ جس طرح یہ بیوقوف لوگ ایمان لے آئے ہیں ہم اس طرح ایمان لے آئیں، ہم بھی بیوقوف بن جائیں۔ یہاں بھی اَلَاۤ کے ساتھ فرمایا یہ بھی ایک نعرہ ہے۔ یہ بھی ایک دھوکہ ہے یہ لوگ دیتے ہیں سادہ لوگوں کو کہ یہ سادہ لوگ بیوقوف لوگ، احمق لوگ کم عقل لوگ ہوتے ہیں جو ان رسولوں کے، انبیاء کے مدعی لوگوں کے فریب میں آتے ہیں کم عقل لوگ مانتے ہیں، ایمان لے آتے ہیں اَلَاۤ اِنَّہُمۡ ہُمُ السُّفَہَآ آگاہ رہو یہ لوگ خود بیوقوف ہیں وَ لٰکِنۡ لَّا یَعۡلَمُوۡنَ ان کو پتہ نہیں ہوتا۔ جو ایمان نہیں لاتے وہ لوگ بیوقوف ہیں، عقل والے وہ ہوتے ہیں جو ایمان لے آتے ہیں۔
یہ نعرہ کم و بیش تمام انبیاء پر ایمان لانے والوں کے خلاف استعمال ہوا۔ حضرت نوح کے زمانے میں بھی لوگوں نے کہا صرف ارذلون ادنی درجے کے لوگ جو ہیں وہ ایمان لے آئے ہیں اور باقی انبیاء کے لئے بھی، ہمارے رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان لانے والے لوگوں کے بارے میں بھی لوگ کہتے تھے کہ ان بھگاؤ یہاں سے، کہ ہم اگر ایمان لے آتے ہیں تو ہم ان لوگوں کے ساتھ بیٹھیں گے۔ آپ پر ایمان لانے والے تو معاشرے کے کمتر لوگ ہیں، سادہ لوح لوگ ہیں، بے عقل لوگ ایمان لے آئے ہیں۔
تمام انبیاء پر ایمان لانے والوں کے بارے میں یہی بات کی ہے لوگوں نے۔ حقیقت میں عقل کا تقاضا یہ ہے کہ مومن بن جائے۔ حدیث میں ہے کہ المومن کیس مومن ہوشیار ہوتا ہے، بے وقوف نہیں ہوتا ہے۔ کیس ہوشیار کو کہتے ہے، مومن ہوشیار ہوتا ہے۔ والاکیس کیس الاخرۃ ہوشیاری آخرت کی ہوشیاری ہے۔ ہوشیاری کیا ہے؟ عقل کا تقاضا کیا ہے؟ حدیث میں آیا ہے کہ العقل ما عبد بہ الرحمن عقل کی تعریف حدیث میں یہ ہوئی ہے ما عبد بہ الرحمن و اکتسب بہ الجنان جس طاقت سے اللہ کی بندگی ہوتی ہے اور جنت حاصل کی جاتی ہے اس طاقت کو عقل کہتے ہیں۔
خدا کی بندگی عقل کا تقاضا ہے اور جنت کا حصول عقل کا تقاضا ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ ان الثواب علی قدر العقل اہل ایمان سفیہ نہیں ہوتے کم عقل نہیں ہوتے بلکہ عقل کے مطابق ثواب ملتا ہے۔ ایک کلیہ ہے یہاں پر، کہ کسی عمل خیر کے زیادہ نیکی ہونے کے سلسلے میں جہاں خود نیکی کی نوعیت کو دخل ہے اس نیکی کے بجا لانے والے کو بھی دخل ہے، وہ بجا لانے والا کیسا ہے۔ ایک بیوقوف آدمی، سادہ آدمی ایک عمل انجام دیتا ہے اس کا اجر اور ہوتا ہے اور ایک عاقل جس کو معرفت ہے اس لئے دوسری حدیث میں ہے افضل العقل معرفۃ الانسان نفسہ بہترین عقل یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو پہچانتا ہے، اپنے مقام بندگی کو پہچانتا ہے، اپنے رب کو من عرف نفسہ فقد عرف ربہ بہترین عقل وہ ہے جو انسان اپنے آپ کو پہچانے اور جو اپنے آپ کو پہچانے وہ اپنے رب کو پہچانتا ہے۔ رب بھی عقل سے پہچانتا ہے۔ اللہ کی معرفت کے بعد اللہ پر ایمان لے آنا عقل کا تقاضا ہے۔ کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل کا ایک عابد ایک سر سبز جگہ اوپر جہاں گھاس پھوس اور درخت نہریں ہیں عبادت کر رہا تھا وہاں سے ایک فرشتہ کا گزر ہوا تو دیکھا یہ بہت بڑا عابد ہے اس کا بہت ثواب ہوگا جب دیکھا کہ اس کا ثواب بہت کم ہے۔ اللہ کی بارگاہ میں عرض کیا یا اللہ یہ عبادت بہت کرتا ہے اس کا ثواب تھوڑا کیوں ہے؟ کہا اس کے ساتھ بیٹھو تھوڑی دیر۔ وہ فرشتہ بھی اس کے ساتھ بیٹھ کر عبادت کرنے لگا تو ایک دن اس نے کہا کہ کاش اللہ تعالیٰ کا گدھا اگر یہاں آتا تو میرے پاس بہترین گھاس ہے چرنے کے لئے تو پھر فرشتے تو پتا چلا کہ اس شخص کی معرفت یہاں تک ہے کہ اللہ تعالیٰ گدھے کا محتاج ہے اور اس کے چرنے کے لئے اس کے گھاس کی ضرورت ہے۔ تو اس طرح کے جو کم عقل لوگ ہوتے ہیں اس کی عقل کے مطابق اس کو ثواب ملتا ہے۔ یہاں پر ارشاد فرمایااَلَاۤ اِنَّہُمۡ ہُمُ السُّفَہَآءُ وَ لٰکِنۡ لَّا یَعۡلَمُوۡنَ ء جو لوگ ایمان نہیں لاتے ہیں وہی کم عقل ہیں۔
ایک زندیق جو منکر خدا ہے منکر آخرت ہے وہ امام کی خدمت میں آتا ہے اور بحث کرتا ہے آخر میں امام نے فرمایا، عقل کی بات، آخر میں امام نے ارشاد فرمایا کہ دیکھو اگر قیامت نہیں ہے، آخرت نہیں ہے یہ ایمان بھی کوئی صحیح چیز نہیں ہے، اور ہم مرتے ہیں اور تم بھی مرتا ہے ہم سب مر جاتے ہیں آخرت میں کچھ بھی نہیں تھا۔ تو ہمارے لئے تو کوئی ضرر نہیں ہے، کچھ بھی نہیں ہے تو کیا ضرر ہے؟ نیست و نابود ہوگئے مٹ گئے ختم ہو گئے۔ کوئی ضرر نہیں۔ اگر تمہاری بات سچی ثابت ہوتی ہے کہ ایمان و آخرت نہیں ہے تو ہمارے لئے کوئی ضرر نہیں ہے۔ شک کی بنیاد پر بھی آخرت کے اوپر ایمان رکھا چاہئے انبیاء کی دعوت پر ایمان رکھنا چاہئے از راہ عقل ضروری ہے۔ لہذا یہ جو ایمان نہیں لاتے ہیں، عقل کے تقاضا کے مطابق عمل نہیں کرتے عقل کے تقاضا کے اوپر ایمان لانے والے جو عمل کرتے ہیں کہ اگر آخرت ہے تو ہمارے لئے کوئی خوف نہیں ہے کوئی خطر نہیں ہے اور اگر آخرت نہیں ہے ان لوگوں کی بات سہی ہوتی ہے تو بھی ہمارے لئے کوئی خوف و خطر نہیں ہے۔
ان شا اللہ تعالٰی خداوند عالم ہم کو دنیا و آخرت دونوں میں امن دے۔
والسلام علیکم و رحمۃاللہ