اَمِ اتَّخَذُوۡۤا اٰلِہَۃً مِّنَ الۡاَرۡضِ ہُمۡ یُنۡشِرُوۡنَ﴿۲۱﴾

۲۱۔ کیا انہوں نے زمین سے ایسے معبود بنا رکھے ہیں جو انہیں زندہ کرتے ہوں؟

لَوۡ کَانَ فِیۡہِمَاۤ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا ۚ فَسُبۡحٰنَ اللّٰہِ رَبِّ الۡعَرۡشِ عَمَّا یَصِفُوۡنَ﴿۲۲﴾

۲۲۔ اگر آسمان و زمین میں اللہ کے سوا معبود ہوتے تو دونوں (کے نظام) درہم برہم ہو جاتے، پس پاک ہے اللہ، رب عرش ان باتوں سے جو یہ بناتے ہیں۔

22۔ آیت، معبود کی وحدت پر دلیل قائم کرتی ہے۔ اگر اس کائنات میں ایک سے زیادہ معبود و مدبر ہوتے تو ذاتاً ایک دوسرے سے مختلف ہوتے۔ ذات میں مختلف ہونے سے تدبیر میں بھی اختلاف لازم آتا ہے۔ تدبیر میں اختلاف سے نظام درہم برہم ہو جاتا ہے، لہٰذا نظام کی وحدت نظام دہندہ کی وحدت کی دلیل ہے۔ قانون کی وحدت قانون ساز کی وحدت کا واضح ثبوت ہے۔

واضح رہے مشرکین غیر اللہ کی عبادت اس بنیاد پر کرتے تھے کہ تدبیر کائنات میں ان کا حصہ اور دخل ہے اس طرح معبود اور مدبر ایک ہی ذات کے لیے دو تعبیریں ہیں۔

لَا یُسۡـَٔلُ عَمَّا یَفۡعَلُ وَ ہُمۡ یُسۡـَٔلُوۡنَ﴿۲۳﴾

۲۳۔ وہ جو کام کرتا ہے اس کی پرسش نہیں ہو گی اور جو کام یہ لوگ کرتے ہیں اس کی ان سے پرسش ہو گی۔

23۔ کسی کے عمل میں غلطی کا امکان ہو تو اس پر سوال ہوتا ہے کہ یہ کام تم نے کیسے انجام دیا ؟ اللہ کی طرف سے کسی قسم کی غلطی کا امکان نہ ہونے کی وجہ سے اس کا ہر عمل مصلحت و حکمت پر مشتمل ہوتا ہے، لہٰذا اللہ پر یہ سوال نہیں ہوتا کہ یہ عمل اللہ نے کیسے انجام دیا؟

اَمِ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اٰلِہَۃً ؕ قُلۡ ہَاتُوۡا بُرۡہَانَکُمۡ ۚ ہٰذَا ذِکۡرُ مَنۡ مَّعِیَ وَ ذِکۡرُ مَنۡ قَبۡلِیۡ ؕ بَلۡ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ۙ الۡحَقَّ فَہُمۡ مُّعۡرِضُوۡنَ﴿۲۴﴾

۲۴۔ کیا انہوں نے اللہ کے سوا معبود بنا لیے ہیں؟ کہدیجئے: تم اپنی دلیل پیش کرو، یہ میرے ساتھ والوں کی کتاب اور مجھ سے پہلے والوں کی کتاب ہے، (ان میں کسی غیر اللہ کا ذکر نہیں) بلکہ اکثر لوگ حق کو جانتے نہیں اس لیے (اس سے) منہ موڑ لیتے ہیں۔

24۔ جو لوگ اللہ کے علاوہ معبود بناتے ہیں۔ ان سے مطالبہ ہے کہ اپنے مدعی پر دلیل پیش کرو۔ کوئی بھی دعویٰ بغیر دلیل کے قابل قبول نہیں ہے۔ غیر اللہ کو معبود بنانے والوں کے پاس نہ صرف دلیل نہیں ہے بلکہ دلیل ان کے خلاف قائم ہے اور تمام آسمانی کتابوں میں اللہ کے علاوہ کسی معبود کا ذکر نہیں ہے۔ اس آیت میں ذکر سے مراد کتاب ہے۔

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا نُوۡحِیۡۤ اِلَیۡہِ اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعۡبُدُوۡنِ﴿۲۵﴾

۲۵۔ اور ہم نے آپ سے پہلے جو بھی رسول بھیجا ہے اس کی طرف یہی وحی کی ہے، بتحقیق میرے سوا کوئی معبود نہیں پس تم صرف میری عبادت کرو۔

25۔ تمام انبیاء کی دعوت کا مرکزی نکتہ ایک معبود کی بندگی کرنا ہے، ایک معبود کی عبادت کی دعوت کا مطلب ایک امر واقعی کی طرف دعوت ہے کہ امر واقع یہ ہے کہ اس کائنات کا سرچشمۂ فیض صرف اللہ ہے اور مالک حقیقی صرف اللہ ہے۔ لہٰذا عبادت اس کی ہو جس کے پاس سب کچھ ہے۔

وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحۡمٰنُ وَلَدًا سُبۡحٰنَہٗ ؕ بَلۡ عِبَادٌ مُّکۡرَمُوۡنَ ﴿ۙ۲۶﴾

۲۶۔ اور وہ کہتے ہیں: اللہ نے بیٹا بنایا ہے، وہ پاک ہے (ایسی باتوں سے) بلکہ یہ تو اللہ کے محترم بندے ہیں۔

26۔ بت پرستوں کا عقیدہ ہے کہ فرشتے اللہ کے فرزند ہیں۔ اس آیت میں ولدیت کی نفی فرمائی اور عبودیت کو ثابت فرمایا اور بندگی کی ایک اہم خصوصیت کا ذکر فرمایا کہ وہ حکم خدا کے منتظر رہتے ہیں۔ حکم خدا سے پہلے کوئی بات نہیں کرتے اور جب حکم خدا مل جاتا ہے تو اس پر عمل کرنے میں تامل نہیں کرتے۔

لَا یَسۡبِقُوۡنَہٗ بِالۡقَوۡلِ وَ ہُمۡ بِاَمۡرِہٖ یَعۡمَلُوۡنَ﴿۲۷﴾

۲۷۔ وہ تو اللہ (کے حکم) سے پہلے بات (بھی) نہیں کرتے اور اسی کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔

یَعۡلَمُ مَا بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ مَا خَلۡفَہُمۡ وَ لَا یَشۡفَعُوۡنَ ۙ اِلَّا لِمَنِ ارۡتَضٰی وَ ہُمۡ مِّنۡ خَشۡیَتِہٖ مُشۡفِقُوۡنَ﴿۲۸﴾

۲۸۔ اللہ ان باتوں کو جانتا ہے جو ان کے روبرو اور جو ان کے پس پردہ ہیں اور وہ فقط ان لوگوں کی شفاعت کر سکتے ہیں جن سے اللہ راضی ہے اور وہ اللہ کی ہیبت سے ہراساں رہتے ہیں۔

28۔ شفاعت ان کو ملے گی جن سے اللہ راضی ہے۔ شرک ایسی چیز ہے کہ اس کا ارتکاب کرنے والے سے اللہ راضی نہیں ہو سکتا، لہٰذا مشرک کو شفاعت ملنے کا امکان نہیں ہے۔

وَ مَنۡ یَّقُلۡ مِنۡہُمۡ اِنِّیۡۤ اِلٰہٌ مِّنۡ دُوۡنِہٖ فَذٰلِکَ نَجۡزِیۡہِ جَہَنَّمَ ؕ کَذٰلِکَ نَجۡزِی الظّٰلِمِیۡنَ﴿٪۲۹﴾

۲۹۔ اور ان میں سے جو کوئی یہ کہدے کہ اللہ کے علاوہ میں بھی معبود ہوں تو ہم اسے جہنم کی سزا دیتے ہیں، چنانچہ ظالموں کو ہم اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں۔

اَوَ لَمۡ یَرَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ کَانَتَا رَتۡقًا فَفَتَقۡنٰہُمَا ؕ وَ جَعَلۡنَا مِنَ الۡمَآءِ کُلَّ شَیۡءٍ حَیٍّ ؕ اَفَلَا یُؤۡمِنُوۡنَ﴿۳۰﴾

۳۰۔ کیا کفار اس بات پر توجہ نہیں دیتے کہ یہ آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے پھر ہم نے انہیں جدا کر دیا ہے اور تمام جاندار چیزوں کو ہم نے پانی سے بنایا ہے؟ تو کیا (پھر بھی) وہ ایمان نہیں لائیں گے ؟

30۔ رَتۡقً کے معنی یکجا ہونا اور فَتَقۡ کے معنی جدا ہونا ہیں۔ آیت کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ جن عناصر سے اجرام ارضی و سماوی وجود میں آئے ہیں، ان سب کا مادہ اصلیہ ایک تھا۔ ممکن ہے یہ مادہ ابتدا میں سحابی شکل میں ہو جس کو قرآن نے دخان (دھواں) کہا ہے اور بعد میں یہ اجرام سماوی و ارضی میں منقسم ہو کر جدا ہو گیا ہو۔ یہ رتق و فتق کے ایک مصداق کا ذکر ہے۔

امام باقر علیہ السلام کی ایک حدیث میں اس آیت کے یہ معنی کرتے ہیں کہ شروع میں آسمان اور زمین بند تھے، اللہ نے ان دونوں کو کھول دیا تو آسمان سے بارش ہوئی اور زمین سے پیداوار نیز اس امکان کا بھی اظہار کیا جاتا ہے کہ کائنات کی ابتدا ایک نقطہ سے ہوئی جس کے پھیلنے سے تمام اجرام سماوی وجود میں آ گئے اور پھیلنے کا سلسلہ جاری ہے۔ کہتے ہیں فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ اس نظریے پر قرینہ ہے، چونکہ فطر شگافتہ کرنے کو کہتے ہیں۔

یہ بات تو اب سب کے لیے واضح ہو گئی ہے کہ ہر جاندار کے تخلیقی عناصر میں پانی کا عنصر غالب ہوتا ہے۔ پانی حیات کے وجود و بقا دونوں کے لیے بنیاد ہے۔