آیت 30
 

اَوَ لَمۡ یَرَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ کَانَتَا رَتۡقًا فَفَتَقۡنٰہُمَا ؕ وَ جَعَلۡنَا مِنَ الۡمَآءِ کُلَّ شَیۡءٍ حَیٍّ ؕ اَفَلَا یُؤۡمِنُوۡنَ﴿۳۰﴾

۳۰۔ کیا کفار اس بات پر توجہ نہیں دیتے کہ یہ آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے پھر ہم نے انہیں جدا کر دیا ہے اور تمام جاندار چیزوں کو ہم نے پانی سے بنایا ہے؟ تو کیا (پھر بھی) وہ ایمان نہیں لائیں گے ؟

تشریح کلمات

رتق:

( ر ت ق ) الرتق کے معنی جوڑنا اور ملانا کے ہیں۔

فتق:

( ف ت ق ) الفتق کے معنی دو متصل چیزوں کو الگ الگ کر دینے کے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ اَوَ لَمۡ یَرَ: یہاں رؤیت سے مراد علمی رویت ہو سکتی ہے جیسا کہ اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصۡحٰبِ الۡفِیۡلِ ۔ (۱۰۵ فیل: ۱) میں علمی رؤیت مراد ہے اور بعض تفسیروں کے مطابق بصری رؤیت بھی ہوسکتی ہے۔

۲۔ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا: یہاں اہل کفر سے مراد مشرکین ہیں جو تخلیق و تدبیر میں تفریق کے قائل تھے اور اللہ کو خالق اور اپنے معبودوں کو مدبر مانتے تھے۔ ان مشرکین کے نظریات کی رد میں کائنات کی تدبیر کی نشانیاں بیان فرئی ہیں کہ تخلیق و تدبیر دونوں ایک ہی ذات کے قبضہ قدرت میں ہیں۔

۳۔ اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ: آسمان و زمین کی تخلیق و تدبیر میں ارتقائی مراحل کا بیان ہے کہ زمین و آسمان ایک زمانے میں باہم متصل تھے بعد میں اللہ نے ان کو جدا کر دیا۔

اس موضوع پر متعدد تفسیری مواقف سامنے آتے ہیں:

i۔ آسمان اور زمین میں سے ہر ایک باہم متصل تھے۔ اللہ نے ان میں شگاف ڈال دیا اور ہر ایک کو سات سات بنایا۔

ii۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ ابتداء میں آسمان بند تھا، بارش نہیں برساتا تھا اور زمین بھی بند تھی، سبزہ نہیں اگاتی تھی۔ پھر اللہ نے ان دونوں میں شگاف ڈال دیا تو آسمان بارش برسانے لگا اور زمین سبزہ اگانے لگی۔

اس صورت میں السَّمٰوٰتِ سے مراد آسمان اول کے آفاق لیے جا سکتے ہیں اور اس تفسیر کے مطابق رؤیت سے مراد بصری ہو گی جو مشرکین کے لیے قابل مشاہدہ ہے۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے ایک روایت بھی اس تفسیر کے مطابق ہے۔

کَانَتِ السَّمَائُ رَتْقاً لَا تُنْزِلُ الْمَطَرَ وَ کَانَتِ الْاَرْضُ رَتْقاً لَا تُنْبِتُ الْحَبَّ فَلَمَّا خَلَقَ اللہُ تَبَارَکَ وَ تَعَالَی الْخَلْقَ وَ بَثَّ فِیْھَا مِنْ کُلِّ دَابَۃٍ فَتَقَ السَّمَائُ بالْمَطَرِ وَالْاَرْضَ بِنَبَاتِ الحَبِّ ۔۔۔ (الکافی: ۸: ۹۴)

آسمان بند تھا، بارش نہیں برساتا تھا اور زمین بھی بند تھی، دانہ نہیں اگاتی تھی۔ جب اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو پیدا کیا اور جانداروں کو پھیلایا تو آسمان میں بارش کے ساتھ اور زمین میں دانہ اگنے کے ساتھ شگاف آگیا۔

نیز اس روایت میں السَّمٰوٰتِ کی جگہ السماء مفرد آیا ہے۔ آیت میں آفاق اور روایت میں بلندی مراد لی جا سکتی ہے۔

اس تفسیر کے مطابق آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ آسمانوں اور زمین میں سے ہر ایک باہم ملے ہوئے تھے درمیان میں کوئی شگاف نہ تھا۔ ہم نے ان دونوں میں شگاف ڈال دیا تو آسمان برسنے اور زمین سبزہ اُگانے لگی۔

۳۔ آسمان سے مراد اجرام سماوی ہیں۔ نظام شمسی میں موجود تمام کرات ایک تھے۔ بعد میں ایک دھماکے کے نتیجے میں یہ کرات سورج سے جد ہو گئے۔ اس طرح زمین اور باقی کرات سورج کے ساتھ ایک تھے۔ بعد میں الگ ہو گئے ہیں۔

۴۔ جن عناصر سے آسمان اور زمین وجود میں آئے ہیں ان سب کا مادہ اصلیہ ایک ہے۔ ممکن ہے یہ مادہ ابتدا میں سحابی شکل میں ہو جسے قرآن نے دخان (دھواں) کہا ہے اور بعد میں آسمان اور زمین میں منقسم ہو کر جدا ہو گیا ہو۔

اس امکان کا بھی اظہار کیا جاتا ہے کہ کائنات کی ابتدا ایک نقطے سے ہوئی جس کے پھیلنے سے تمام اجرام وجود میں آ گئے اور پھیلنے کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ کہتے ہیں: فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ کا جملہ اس نظریہ پر قرینہ ہے چونکہ فطر شگافتہ کرنے کو کہتے ہیں۔

یہ اپنی جگہ درست ہے کہ اگر آسمان و زمین سے اجرام فلکی مراد لیے جاتے ہیں تو ان تمام اجرام کا مادہ اولیہ ایک ہے مگر اس مادہ اولیہ کے وصل و فصل ( رتق و فتق ) کی تفصیل بیان کرنا اور اس کی نوعیت کو سمجھنے کے لیے سائنسی نظریات کی طرف رجوع کرنا، جو ہنوز صرف تھیوری کے مرحلے میں ہیں اور انہیں سند قرار دینا درست نہ ہو گا چونکہ سائنسی نظریات بدلتے رہتے ہیں جب کہ قرآن ایک لا یتغیر اور ثابت حقیقت ہے۔ ثانیاً قرآن ایک دستور حیات ہے، سائنسی اور فلکیاتی موضوع کی کتاب نہیں ہے۔

۵۔ وَ جَعَلۡنَا مِنَ الۡمَآءِ کُلَّ شَیۡءٍ حَیٍّ: تمام جاندار چیزوں کو ہم نے پانی سے بنایا ہے۔ دوسری جگہ فرمایا:

وَ اللّٰہُ خَلَقَ کُلَّ دَآبَّۃٍ مِّنۡ مَّآءٍ ۔۔۔ (۲۴ نور:۴۵)

اللہ نے زمین پر چلنے والے ہر جاندار کو پانی سے خلق فرمایا۔

پانی زندہ اشیاء کی تخلیق اور بقا دونوں کے لیے بنیادی عنصر ہے چنانچہ انسان، حیوانات اور نباتات کی حیات پانی پر موقوف ہے۔ انسان کو اپنے ذرائع سے بھی پتہ چلا ہے کہ زندہ مخلوقات پانی کے کناروں سے پیدا ہونا شروع ہوتی ہیں۔ چنانچہ دوسرے کرات پر زندگی کا سوال ہوتا ہے تو سب سے پہلے وہاں پانی کے وافر مقدار میں موجود ہونے کا سوال اٹھایا جاتا ہے۔

اَفَلَا یُؤۡمِنُوۡنَ: کیا یہ مشرکین اللہ کے تدبیری معجزات دیکھنے کے بعد بھی ایمان نہیں لاتے کہ اس کائنات کی تدبیر کسی غیر اللہ کا ہاتھ میں نہیں ہے۔


آیت 30