آیات 26 - 27
 

وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحۡمٰنُ وَلَدًا سُبۡحٰنَہٗ ؕ بَلۡ عِبَادٌ مُّکۡرَمُوۡنَ ﴿ۙ۲۶﴾

۲۶۔ اور وہ کہتے ہیں: اللہ نے بیٹا بنایا ہے، وہ پاک ہے (ایسی باتوں سے) بلکہ یہ تو اللہ کے محترم بندے ہیں۔

لَا یَسۡبِقُوۡنَہٗ بِالۡقَوۡلِ وَ ہُمۡ بِاَمۡرِہٖ یَعۡمَلُوۡنَ﴿۲۷﴾

۲۷۔ وہ تو اللہ (کے حکم) سے پہلے بات (بھی) نہیں کرتے اور اسی کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ قَالُوا: مشرکین کا یہ عقیدہ تھا کہ فرشتے اللہ کی اولاد ہیں۔ سُبۡحٰنَہٗ اللہ کی ذات اس سے منزہ اور پاکیزہ ہے کہ اس کی کوئی اولاد ہو۔ اللہ اور غیر اللہ میں خالق و مخلوق اور عبد و معبود کا رشتہ ہو سکتا ہے، باپ بیٹے کا رشتہ ہونا اللہ تعالیٰ کی شان خالقیت کے منافی ہے کہ اس کائنات میں اللہ کے علاوہ کوئی وجود ہو اور وہ اس کی مخلوق نہ ہو۔

۲۔ بَلۡ عِبَادٌ مُّکۡرَمُوۡنَ: یہ فرشتے عزت و تکریم کے قابل بندے ہیں۔ ان کی بندگی قابل احترام ہے چونکہ یہ بندگی کا حق ادا کرتے ہیں۔

۳۔ لَا یَسۡبِقُوۡنَہٗ بِالۡقَوۡلِ: وہ اللہ کے حکم سے پہلے بات تک نہیں کرتے۔ ان کی ہر بات حکم خدا کے تابع ہوتی ہے۔

۴۔ وَ ہُمۡ بِاَمۡرِہٖ یَعۡمَلُوۡنَ: ان کا عمل بھی اللہ کے حکم کے تابع ہوتا ہے۔ یہ فرشتے بندگی میں قابل احترام اس لیے ہیں کہ وہ قول و فعل میں اللہ کے حکم کے تابع ہوتے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ حقیقی بندگی یہ ہے کہ بندہ قول و فعل دونوں میں اللہ کے حکم کے تابع ہو۔


آیات 26 - 27