آیت 23
 

لَا یُسۡـَٔلُ عَمَّا یَفۡعَلُ وَ ہُمۡ یُسۡـَٔلُوۡنَ﴿۲۳﴾

۲۳۔ وہ جو کام کرتا ہے اس کی پرسش نہیں ہو گی اور جو کام یہ لوگ کرتے ہیں اس کی ان سے پرسش ہو گی۔

تفسیر آیات

اللہ تعالیٰ پر سوال نہیں آتا کہ یہ کام کیوں انجام دیا؟ یعنی اعتراضی سوال نہیں ہوتا۔

۱۔ چونکہ اللہ تعالیٰ حکیم ہے اور کوئی کام بغیر حکمت و مصلحت کے انجام نہیں دیتا لہٰذا اس کے کسی عمل پر اعتراض نہیں ہو سکتا۔ جب کہ غیر اللہ سے غلطی سرزد ہو سکتی ہے۔ لہٰذ غیر اللہ سے سوال ہو سکتا ہے۔

۲۔ اللہ تعالیٰ تمام کائنات کا مالک حقیقی ہے۔ وہ اپنے مملوک پر جس طرح چاہے تصرف کر سکتا ہے۔ اس پر یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کہ اس نے اپنی مملوک پر اس قسم کا تصرف کیوں کیا؟ پھر اللہ تعالیٰ نے خود ہمیں بتایا ہے کہ وہ حکیم ہے۔ بلا حکمت و مصلحت کوئی عمل انجام نہیں دیتا۔

کیا اللہ تعالیٰ کے افعال کسی غرض و غایت کے تابع معلل بالاغراض ہیں؟

اشاعرہ اہل سنت کا موقف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے افعال کسی غرض و غایت اور مصلحت و حکمت کے تابع نہیں ہیں۔ وہ فاعل الخیر والشر ہے۔ اللہ اپنے اعمال کی انجام دہی میں کسی غرض و غایت اور حکمت و مصلحت کا محتاج نہیں ہے۔ اس لیے اللہ کے افعال کے بارے میں سوال نہیں ہو سکتا۔

جواب دیا گیا ہے کہ اللہ اپنی ذات سے خارج کسی چیز کا محتاج نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے افعال کا حکمت کے تحت ہونا خود ذات خدا سے مربوط ہے۔ دوسرے لفظوں میں اللہ تعالیٰ اپنے افعال میں موجود مصلحت کا محتاج نہیں ہے بلکہ اللہ کے افعال میں مصلحت کا ہونا، اس فعل کا ذات خدا سے صادر ہونے کے لیے ضروری ہے۔ فافہم ذلک ۔

اس کی وضاحت اس طرح ہے کہ جب اللہ نے پانی خلق کیا تو اللہ پانی کے اندر موجود مصلحتوں کا محتاج نہیں ہے لیکن پانی کے اندر مصلحتوں کا ہونا پانی کے خلق کے لیے ضروری ہے ورنہ بے مصلحت، بے فائدہ، عبث کام اللہ سے صادر نہیں ہو سکتا۔

وَ ہُمۡ یُسۡـَٔلُوۡنَ: دوسرے لوگوں سے پوچھا جائے گا۔ چونکہ وہ مملوک بندے خطاکار ہیں۔


آیت 23