آیت 22
 

لَوۡ کَانَ فِیۡہِمَاۤ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا ۚ فَسُبۡحٰنَ اللّٰہِ رَبِّ الۡعَرۡشِ عَمَّا یَصِفُوۡنَ﴿۲۲﴾

۲۲۔ اگر آسمان و زمین میں اللہ کے سوا معبود ہوتے تو دونوں (کے نظام) درہم برہم ہو جاتے، پس پاک ہے اللہ، رب عرش ان باتوں سے جو یہ بناتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ لَوۡ کَانَ فِیۡہِمَاۤ: واضح رہے مشرکین معبود اسے بناتے تھے جو ان کے زعم میں کائنات کی تدبیر میں حصہ دار اور شریک ہے۔ لہٰذا تعدد معبود کا مطلب ان کے نزدیک تعدد مدبر ہے۔ چنانچہ وہ کسی ذات کو اپنے امور کا مدبر تسلیم کر کے اسے رب مانتے، پھر اس کی پرستش کرتے اور زندگی کے ہر شعبے کے لیے ایک مدبر اور رب کو مانتے تھے۔ مثلاً فتح و نصرت کا رب، رزق کا رب، آسمان کا رب، زمین کا رب وغیرہ وغیرہ ورنہ وہ بھی ایک ہی خالق کو مانتے تھے۔ وہ تعدد خالق کے قائل نہ تھے:

وَ لَئِنۡ سَاَلۡتَہُمۡ مَّنۡ خَلَقَہُمۡ لَیَقُوۡلُنَّ اللّٰہُ ۔۔۔ (۴۳ زخرف:۸۷)

اور اگر آپ ان سے پوچھیں: انہیں کس نے خلق کیا ہے؟ تو یہ ضرور کہیں گے: اللہ نے۔

یہ آیت معبود کی وحدت پر اس طرح دلیل قائم کرتی ہے: اگر اس کائنات میں ایک سے زیادہ معبود و مدبر ہوتے تو ذاتاً ایک دوسرے سے مختلف ہوتے۔ ذات میں مختلف ہونے سے تدبیر میں اختلاف لازم آتا ہے۔ تدبیر میں اختلاف سے نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ لہٰذا نظام کی وحدت، نظام دہندہ کی وحدت کی دلیل ہے۔ قانون کی وحدت، قانون ساز کی وحدت کا واضح ثبوت ہے۔

چنانچہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ہشام بن حکم روایت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا: اللہ کے ایک ہونے پر کیا دلیل ہے؟ فرمایا:

اتصال التدبیر و تمام الصنع ۔۔۔۔ (ابن بابویہ۔ التوحید: ۲۵۰)

تدبیر میں ہم آہنگی اور صناعیت میں کمال۔

یعنی اگر ایک سے زائد مدبر ہوتے تو تدبیر میں خلا آ جاتا اور صناعیت میں نقص۔

۲۔ اگر ایک سے زیادہ معبود و مدبر ہوتے تو دونوں محدود ہوتے۔ محدود اپنی حدود میں محصور، دوسرے کی حدود میں مقہور ہوتا ہے۔ محصور اور مقہور معبود و مدبر نہیں ہو سکتا۔

۳۔ اگر دو مدبر ہیں تو ایک چیزپر ہر دو ارادوں کا نافذ ہونا لازم آتا ہے اور یہ بات ناممکن ہے کہ ایک چیز دو مرتبہ وجود میں آئے۔ مثلاً زمین پر ایک ارادہ نافذ ہونے سے اس میں روئیدگی آ گئی۔ دوسری مرتبہ ایک اور ارادہ نافذ ہوا تو زمین کی روئیدگی وجود میں نہیں آ سکے گی چونکہ ایک موجود پر دو ارادے نافذ نہیں ہو سکتے۔

۴۔ روایت میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: معبود ایک ہونے کی دلیل اتصال التدبیر ہے۔ یعنی تدبیر میں ہم آہنگی۔ اس کی وضاحت کچھ اس طرح ہے: موجودہ تدبیر میں خاک، پانی اور دھوپ میں ہم آہنگی ہے جس کی وجہ سے دانہ اُگتا ہے۔ اگر ایک مدبر نے خاک بنائی، دوسرے نے پانی بنایا تو خاک اور پانی میں ہم آہنگی نہ ہوتی۔ خاک پرپانی پڑنے سے خاک سٹر جاتی اور پانی خراب ہو جاتا چونکہ جس مدبر نے پانی بنایا وہ خاک کی خاصیت سے بے خبر ہے اور جس نے خاک بنائی وہ پانی کی خاصیت سے آگاہ نہیں۔ اگر دونوں نے اتفاق کیا ہے تو متفقہ فیصلہ ایک ہوا، دو نہ ہوئے۔ یعنی تدبیر ایک ہو گئی۔ اس طرح جو فرض کیا تھا وہ ایک ہو جاتا ہے۔

۵۔ فَسُبۡحٰنَ اللّٰہِ رَبِّ الۡعَرۡشِ عَمَّا یَصِفُوۡنَ: پاکیزہ ہے اللہ مشرکین کے وہم و خیال سے، جس میں وہ اللہ کے معبود اور مدبر کے مقام پر اس کی مخلوق کو بھی شریک کرتے ہیں جب کہ اللہ تعالیٰ پروردگار عرش ہے۔ اس جگہ رب العرش کہنے سے اس نظریے کو تقویت ملتی ہے کہ عرش اللہ تعالیٰ کے مقام تدبیر سے عبارت ہے۔ چنانچہ اکثر جہاں بھی تدبیر سے مربوط کسی موضوع کا ذکر آتا ہے وہاں عرش کا ذکر بھی آتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ قرآنی تصریحات میں اللہ، خالق، رب اور مدبر ایک ہی ذات سے عبارت اور ناقابل تفریق ہے۔

۲۔ شرک کا بنیادی عقیدہ اللہ، خالق، رب اور مدبر میں تفریق پر قائم ہے۔


آیت 22