آیت 97
 

قَالَ فَاذۡہَبۡ فَاِنَّ لَکَ فِی الۡحَیٰوۃِ اَنۡ تَقُوۡلَ لَا مِسَاسَ ۪ وَ اِنَّ لَکَ مَوۡعِدًا لَّنۡ تُخۡلَفَہٗ ۚ وَ انۡظُرۡ اِلٰۤی اِلٰـہِکَ الَّذِیۡ ظَلۡتَ عَلَیۡہِ عَاکِفًا ؕ لَنُحَرِّقَنَّہٗ ثُمَّ لَنَنۡسِفَنَّہٗ فِی الۡیَمِّ نَسۡفًا﴿۹۷﴾

۹۷۔موسیٰ نے کہا: دور ہو جا(تیری سزا یہ ہے کہ ) تجھے زندگی بھر یہ کہتے رہنا ہو گا مجھے ہاتھ نہ لگانا اور تیرے لیے ایک وقت مقرر ہے جو تجھ سے ٹلنے والا نہیں ہے اور تو اپنے اس معبود کو دیکھ جس (کی پوجا) میں تو منہمک تھا، ہم اسے ضرور جلا ڈالیں گے پھر اس (کی راکھ ) کو اڑا کر دریا میں ضرور بکھیر دیں گے ۔

تفسیر آیات

زندگی بھر اپنے اچھوت ہونے کا لوگوں میں اظہارکرتے رہو۔ نہ کسی سے تعلقات رکھ سکتے ہو، نہ کسی سے کوئی چیز لے سکتے، ہو نہ دے سکتے ہو، نہ کسی کی صحبت میں رہ سکتے ہو۔ تجھے تنہائی کی زندگی گزارنا ہو گی۔

بعض روایات میں آیا ہے کہ سامری کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بددعا سے کوڑھ کی بیماری لاحق ہو گئی جس کی وجہ سے وہ ہر قریب آنے والے کو مطلع کرتا رہتا تھا کہ میں ناپاک ہوں، مجھے نہ چھونا۔

وَ اِنَّ لَکَ مَوۡعِدًا: ایک معین وقت میں ضرور مرنا ہے۔

وَ انۡظُرۡ اِلٰۤی اِلٰـہِکَ: اس سے معلوم ہوا کہ سامری نے اسے اپنا معبود بنا لیا تھا۔

لَنُحَرِّقَنَّہٗ ثُمَّ: گوسالہ کی مورت سونا ہونے کی صورت میں جلانے کا مطلب یہ بنتا ہے کہ اسے پگھلا کر ریزہ ریزہ کیا گیا ہو اور دریا میں بہا دیا گیا ہو۔

اہم نکات

۱۔ شرک کے آثار کو کسی بھی شکل میں باقی نہیں چھوڑنا چاہیے۔


آیت 97