بدعتی افراد سے سوشل بائیکاٹ


قَالَ فَاذۡہَبۡ فَاِنَّ لَکَ فِی الۡحَیٰوۃِ اَنۡ تَقُوۡلَ لَا مِسَاسَ ۪ وَ اِنَّ لَکَ مَوۡعِدًا لَّنۡ تُخۡلَفَہٗ ۚ وَ انۡظُرۡ اِلٰۤی اِلٰـہِکَ الَّذِیۡ ظَلۡتَ عَلَیۡہِ عَاکِفًا ؕ لَنُحَرِّقَنَّہٗ ثُمَّ لَنَنۡسِفَنَّہٗ فِی الۡیَمِّ نَسۡفًا﴿۹۷﴾

۹۷۔موسیٰ نے کہا: دور ہو جا(تیری سزا یہ ہے کہ ) تجھے زندگی بھر یہ کہتے رہنا ہو گا مجھے ہاتھ نہ لگانا اور تیرے لیے ایک وقت مقرر ہے جو تجھ سے ٹلنے والا نہیں ہے اور تو اپنے اس معبود کو دیکھ جس (کی پوجا) میں تو منہمک تھا، ہم اسے ضرور جلا ڈالیں گے پھر اس (کی راکھ ) کو اڑا کر دریا میں ضرور بکھیر دیں گے ۔

97۔ یعنی اسے معاشرے سے اس طرح جدا کر دیا گیا کہ وہ خود اس کا اعلان کرتا پھرے: خبردار مجھے چھونا نہیں۔ ممکن ہے اسے ایسی بیماری میں مبتلا کر دیا گیا ہو جس سے وہ اچھوت بن کر رہ گیا ہو۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بد دعا سے کوڑھ کی بیماری میں مبتلا ہو گیا تھا جس کی وجہ سے وہ ہر قریب آنے والے کو مطلع کرتا رہتا تھا کہ میں ناپاک ہوں، مجھے چھونا نہیں۔