آیات 95 - 96
 

قَالَ فَمَا خَطۡبُکَ یٰسَامِرِیُّ﴿۹۵﴾

۹۵۔ کہا : اے سامری! تیرا مدعا کیا ہے؟

قَالَ بَصُرۡتُ بِمَا لَمۡ یَبۡصُرُوۡا بِہٖ فَقَبَضۡتُ قَبۡضَۃً مِّنۡ اَثَرِ الرَّسُوۡلِ فَنَبَذۡتُہَا وَ کَذٰلِکَ سَوَّلَتۡ لِیۡ نَفۡسِیۡ﴿۹۶﴾

۹۶۔ اس نے کہا: میں نے ایسی چیز کا مشاہدہ کیا جس کا دوسروں نے مشاہدہ نہیں کیا پس میں نے فرستادہ خدا کے نقش قدم سے ایک مٹھی(بھر خاک) اٹھا لی پھر میں نے اسے (بچھڑے کے قالب میں) ڈال دیا اور میرے نفس نے یہ بات میرے لیے بھلی بنا دی۔

تفسیر آیات

قدیم مفسرین اس آیت کی مختلف تفسیریں کرتے ہیں:

پہلی تفسیر ایک روایت کی بنا پر کرتے ہیں:سامری نے جبرئیل کے گھوڑے کو فرعون کے گھوڑے کے آگے چلتے دیکھ لیا تھا تاکہ وہ دریا کے شق شدہ راستے میں داخل ہو اور اس گھوڑے کے سم کے نیچے سے مٹی اٹھائی تھی۔ اس کا اثر یہ تھا کہ جس چیز میں وہ مٹی ڈال دے اس میں جان آ جاتی تھی۔ سامری نے اسی مٹی کو گوسالہ کے قالب میں ڈالا، اس میں جان آ گئی اور آواز نکلنی شروع ہوگئی۔

قرآنی تعبیر جَسَدًا لَّہٗ خُوَارٌ اس روایت کو رد کرتی ہے چونکہ جسد، بے جان چیز کو کہتے ہیں اور یہ آواز اسی بے جان جسد میں تھی۔

دوسری تفسیر یہ کرتے ہیں کہ سامری نے کہا: میں نے دین موسیٰ میں وہ کمزوری دیکھی جو دوسروں نے نہیں دیکھی۔ چنانچہ اس رسول کی کچھ تعلیمات کو لیا، پھر چھوڑ دیا۔

اس تفسیر کا سیاق و سباق آیت کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں بنتا چونکہ:

قبض ، اخذ کے معنی میں، اثر ، دین کے معنی میں اور نبذ ، ترک کے معنی میں قرآنی استعمالات سے نہایت بعید ہے۔

تیسری تفسیر یہ کرتے ہیں: مجھے زرگری میں وہ مہارت حاصل تھی جو دوسروں کو نہ تھی۔ میں نے رسول کے آثار یعنی زیورات میں سے کچھ حصہ اپنے قبضے میں کیا تھا۔ اس تفسیر میں زیورات کو رسول کے آثار میں سے قرار دینا بہت زیادہ بعید از قیاس ہے۔

چوتھی تفسیر و توجیہ یہ کی جاتی ہے کہ سامری نے خود یہ بات گھڑ لی تھی کہ یہ رسول کے قدموں کی مٹی کی کرامت تھی کہ اس سے گوسالہ کی آواز آگئی۔ ہو سکتا ہے رسول سے مراد جبرئیل ہوں یا خود حضرت موسیٰ(ع) ہوں جب کہ حقیقت یہ تھی کہ اس گوسالہ کی ساخت کچھ اس طرح تھی کہ اس سے ہوا کے گزرنے سے آواز نکلتی تھی۔ والعلم عند اللّٰہ ۔

اہم نکات

۱۔ لوگوں نے رسول کے نمایندے کے مقابلے میں ایک شعبدہ باز کو مان لیا۔


آیات 95 - 96