آیت 94
 

قَالَ یَبۡنَؤُمَّ لَا تَاۡخُذۡ بِلِحۡیَتِیۡ وَ لَا بِرَاۡسِیۡ ۚ اِنِّیۡ خَشِیۡتُ اَنۡ تَقُوۡلَ فَرَّقۡتَ بَیۡنَ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ وَ لَمۡ تَرۡقُبۡ قَوۡلِیۡ﴿۹۴﴾

۹۴۔ ہارون نے جواب دیا: اے ماں جائے! میری داڑھی اور سر کے بال نہ پکڑیں، مجھے تو اس بات کا خوف تھا کہ کہیں آپ یہ نہ کہیں کہ تو نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا اور میری بات کا انتظار نہ کیا۔

تفسیر آیات

معلوم ہوتا ہے حضرت موسیٰ نے ہارون علیہما السلام کے سر اور داڑھی سے پکڑ کر مارنا چاہا۔ چنانچہ سورہ اعراف میں آیا ہے:

وَ اَخَذَ بِرَاۡسِ اَخِیۡہِ یَجُرُّہٗۤ اِلَیۡہِ ۔۔۔۔ (۷ اعراف: ۱۵۰)

اور اپنے بھائی کو سر کے بالوں سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا۔۔۔۔

ہارون علیہ السلام نے جواب میں کہا: مجھے ڈر تھا کہ کہیں آپ یہ نہ کہیں کہ تو نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈالا اور میری بات کا انتظار نہ کیا۔ اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ حضرت ہارون علیہ السلام نے توحید پر اتحاد کو مقدم کیا جب کہ توحید کو کسی اور چیز پر قربان نہیں کیا جاتا۔

جواب یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام نے شرک کے مقابلے میں سکوت اختیار کیا ہو۔ حضرت ہارون علیہ السلام نے شرک کے خلاف اس حد تک قیام کیا کہ انہیں اپنے قتل کا خطرہ لاحق ہو گیا۔ چنانچہ سورہ اعراف :۱۵۰ میں آیا ہے:

قَالَ ابۡنَ اُمَّ اِنَّ الۡقَوۡمَ اسۡتَضۡعَفُوۡنِیۡ وَ کَادُوۡا یَقۡتُلُوۡنَنِیۡ ۔۔۔۔

اے ماں جائے! یقینا قوم نے مجھے کمزور بنا دیا تھا اور وہ مجھے قتل کرنے والے تھے۔۔۔

جب نوبت مقاتلہ تک پہنچی تو حضرت ہارون علیہ السلام نے دیکھا کہ اگر اس قوم میں خانہ جنگی شروع ہو گئی تو دھڑے بندی اس حد تک آگے بڑھ جائے گی کہ بعد میں واپسی ممکن نہ ہو گی۔ اس عذر کو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قبول کیا اور اپنے بھائی کے لیے دعا کی۔

اہم نکات

۱۔ داعی حق کو چاہیے کہ حجت پوری کرنے کے بعد انتظار کرے۔


آیت 94