آیات 64 - 65
 

وَ مَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمۡرِ رَبِّکَ ۚ لَہٗ مَا بَیۡنَ اَیۡدِیۡنَا وَ مَا خَلۡفَنَا وَ مَا بَیۡنَ ذٰلِکَ ۚ وَ مَا کَانَ رَبُّکَ نَسِیًّا ﴿ۚ۶۴﴾

۶۴۔ اور ہم (فرشتے)آپ کے رب کے حکم کے بغیر نہیں اتر سکتے، جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو کچھ ہمارے پیچھے ہے اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب اسی کا ہے اور آپ کا رب بھولنے والا نہیں ہے۔

رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا بَیۡنَہُمَا فَاعۡبُدۡہُ وَ اصۡطَبِرۡ لِعِبَادَتِہٖ ؕ ہَلۡ تَعۡلَمُ لَہٗ سَمِیًّا﴿٪۶۵﴾

۶۵۔ وہ آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب ہے لہٰذا اسی کی عبادت کرو اور اسی کی بندگی پر ثابت قدم رہو، کیا اس کا کوئی ہمنام تمہارے علم میں ہے؟

شان نزول: ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہونے میں کچھ دنوں کا وقفہ آیا۔ جب وقفہ ختم ہوا تو حضور ؐ نے جبرئیل سے تاخیر کا سبب پوچھا تو جبرئیل یہ آیت لے کر نازل ہوئے۔

ہم تو امر رب کے تابع فرماں ہیں۔ اس میں ہمارا اپنا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ ہر سو ہر سمت اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے۔ اس کے حکم کے بغیر نہ ہم آگے جا سکتے ہیں: لَہٗ مَا بَیۡنَ اَیۡدِیۡنَا نہ ہم پیچھے جا سکتے اور تاخیر کر سکتے ہیں: وَ مَا خَلۡفَنَا ، نہ ہم تاخیر و تقدیم کے درمیان کوئی راستہ بنا سکتے ہیں: وَ مَا بَیۡنَ ذٰلِکَ ۔ ہم ہمہ جہت اور ہر سو سے اللہ کے دائرہ اختیار میں ہیں۔

اس آیت کی مرکزی توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ وحی کے عمل میں اللہ کے علاوہ کسی اور کی کوئی مداخلت نہیں ہوتی۔

تفسیر آیات

وَ مَا کَانَ رَبُّکَ نَسِیًّا: فرشتوں کے نزول اور عدم نزول میں منشاء و ارادہ الٰہی کارفرما ہوتا ہے جو حکمت و مصلحت سے لبریز ہے۔ اس میں نسیان جیسے مہمل عمل کا تصور نہیں ہے۔

رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ: اس پوری کائنات کا وہی رب اور مالک ہے۔ تدبیر کائنات کا عمل اسی رب سے مربوط ہے منجملہ نزول وحی کا عمل بھی اسی واحد رب سے مربوط ہے۔

ہَلۡ تَعۡلَمُ لَہٗ سَمِیًّا: اس ذات کے علاوہ کوئی اور ذات نہیں ہے جو رب ہونے میں اللہ کے ساتھ ہمنام ہو۔ اس کائنات میں ایک ہی ذات ہے جس پر رب کا اطلاق ہوتا۔

فَاعۡبُدۡہُ: عبادت صرف رب کی ہوتی ہے۔ جب عالمین کا ایک رب ہے تو عبادت بھی صرف اسی کی ہو گی۔

اہم نکات

۱۔ اللہ ہی اس کائنات کا مالک ہے۔ پس اسی کی عبادت ہونی چاہیے۔


آیات 64 - 65