آیات 66 - 67
 

وَ یَقُوۡلُ الۡاِنۡسَانُ ءَ اِذَا مَا مِتُّ لَسَوۡفَ اُخۡرَجُ حَیًّا﴿۶۶﴾

۶۶۔ اور انسان کہتا ہے: جب میں مر جاؤں گا تو کیا میں زندہ کر کے نکالا جاؤں گا؟

اَوَ لَا یَذۡکُرُ الۡاِنۡسَانُ اَنَّا خَلَقۡنٰہُ مِنۡ قَبۡلُ وَ لَمۡ یَکُ شَیۡئًا﴿۶۷﴾

۶۷۔ کیا اس انسان کو یاد نہیں کہ ہم نے اسے پہلے اس وقت پیدا کیا، جب وہ کچھ بھی نہ تھا؟

تفسیر آیات

وَ یَقُوۡلُ الۡاِنۡسَانُ: انسان ہو کر اللہ کی قدرت کے بارے میں شک پیدا کرنا انسانی عقل و شعور اور مشاہدات کے خلاف ہے۔ عقل و شعور کے خلاف اس لیے ہے کہ اس عظیم کائنات کو پیدا کرنے والی ذات کے لیے انسان کا دوبارہ پیدا کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

لَخَلۡقُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ اَکۡبَرُ مِنۡ خَلۡقِ النَّاسِ ۔۔۔۔ (۴۰ غافر:۵۷)

آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا انسانوں کے خلق کرنے سے زیادہ بڑا کام ہے۔۔۔۔

اَوَ لَیۡسَ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ بِقٰدِرٍ عَلٰۤی اَنۡ یَّخۡلُقَ مِثۡلَہُمۡ ۔۔۔۔ (۳۶ یٰس:۸۱)

جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے، آیا وہ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ ان جیسوں کو پیدا کرے؟

مشاہدات کے خلاف اس لیے ہے کہ انسان اپنی پیدائش پر تو علم رکھتا ہے کہ عدم سے وجود میں لایا گیا ہے۔

وَ لَقَدۡ عَلِمۡتُمُ النَّشۡاَۃَ الۡاُوۡلٰی فَلَوۡ لَا تَذَکَّرُوۡنَ (۵۶ واقعہ:۶۲)

اور بتحقیق پہلی پیدائش کو تم جان چکے ہو، پھر تم عبرت حاصل کیوں نہیں کرتے؟

اہم نکات

۱۔ ایک عاقل انسان کے لیے قدرت الٰہی پر سوالیہ نشان لگانا تعجب خیز ہے۔


آیات 66 - 67