آیت 19
 

قَالَ اِنَّمَاۤ اَنَا رَسُوۡلُ رَبِّکِ ٭ۖ لِاَہَبَ لَکِ غُلٰمًا زَکِیًّا﴿۱۹﴾

۱۹۔ اس نے کہا: میں تو بس آپ کے رب کا پیغام رساں ہوں تاکہ آپ کو پاکیزہ بیٹا دوں۔

تفسیر آیات

رَسُوۡلُ رَبِّکِ: آپ کے رب کا رسول ہوں۔ ایک مہم کے لیے آپ کے رب کا فرستادہ ہوں۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس سے ثابت ہو رہا ہے کہ غیر نبی پر بھی جبرئیل کا نزول ہوتا ہے اور اللہ غیر نبی کی طرف بھی اپنا رسول بھیجتا ہے۔

لِاَہَبَ لَکِ غُلٰمًا زَکِیًّا: میں تجھے پاکیزہ لڑکا دوں۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ اللہ کا فرستادہ اس بات کو اپنی طرف نسبت دیتا ہے کہ ’’میں لڑکا دوں۔‘‘ کہنا یہ چاہیے کہ’’اللہ کی طرف سے لڑکا دوں۔‘‘

جواب یہ ہے: اگر کوئی شخص کسی کی طرف سے نمائندہ یا وکیل ہو تو کبھی اس فعل کو اس ذات کی طرف نسبت دیتا ہے جس کا نمائندہ یا وکیل ہے اور کبھی اپنی طرف نسبت دیتا ہے۔ جب اپنی طرف نسبت دیتا ہے تو نمائندہ ہونا اس بات پر قرینہ ہے کہ یہ عمل میرا اپنا نہیں ہے۔

جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا:

وَ اُبۡرِیٴُ الۡاَکۡمَہَ وَ الۡاَبۡرَصَ وَ اُحۡیِ الۡمَوۡتٰی بِاِذۡنِ اللّٰہِ ۔۔۔۔ (۳ آل عمران: ۴۹)

اور میں اللہ کے حکم سے مادر زاد اندھے اور برص کے مریض کو تندرست اور مردے کو زندہ کرتا ہوں۔۔

یہاں بھی باذن اللہ قرینہ ہے کہ یہ عمل اللہ کا ہے۔

اہم نکات

۱۔ اللہ کے نمائندوں کا عمل، اللہ کا عمل ہوتا ہے: لِاَہَبَ ۔۔۔۔


آیت 19