آیات 85 - 88
 

فَاَتۡبَعَ سَبَبًا﴿۸۵﴾

۸۵۔ چنانچہ پھر وہ راہ پر ہو لیا۔

حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ مَغۡرِبَ الشَّمۡسِ وَجَدَہَا تَغۡرُبُ فِیۡ عَیۡنٍ حَمِئَۃٍ وَّ وَجَدَ عِنۡدَہَا قَوۡمًا ۬ؕ قُلۡنَا یٰذَا الۡقَرۡنَیۡنِ اِمَّاۤ اَنۡ تُعَذِّبَ وَ اِمَّاۤ اَنۡ تَتَّخِذَ فِیۡہِمۡ حُسۡنًا﴿۸۶﴾

۸۶۔ یہاں تک کہ جب وہ سورج کے غروب ہونے کی جگہ پہنچا تو اس نے سورج کو سیاہ رنگ کے پانی میں غروب ہوتے دیکھا اور اس کے پاس اس نے ایک قوم کو پایا، ہم نے کہا: اے ذوالقرنین! انہیں سزا دو یا ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو (تمہیں اختیار ہے)۔

قَالَ اَمَّا مَنۡ ظَلَمَ فَسَوۡفَ نُعَذِّبُہٗ ثُمَّ یُرَدُّ اِلٰی رَبِّہٖ فَیُعَذِّبُہٗ عَذَابًا نُّکۡرًا﴿۸۷﴾

۸۷۔ ذوالقرنین نے کہا: جو ظلم کا ارتکاب کرے گا عنقریب ہم اسے سزا دیں گے پھر جب وہ اپنے رب کی طرف پلٹایا جائے گا تو وہ اسے برا عذاب دے گا۔

وَ اَمَّا مَنۡ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَہٗ جَزَآءَۨ الۡحُسۡنٰی ۚ وَ سَنَقُوۡلُ لَہٗ مِنۡ اَمۡرِنَا یُسۡرًا ﴿ؕ۸۸﴾

۸۸۔ لیکن جو ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا تو اسے بہت اچھا اجر ملے گا اور ہم بھی اپنے معاملات میں اس سے نرمی کے ساتھ بات کریں گے ۔

تشریح کلمات

حَمِئَۃٍ:

سیاہ، حمأ سیاہ مٹی، من حمأ مسنون ۔ سڑی ہوئی سیاہ مٹی۔

تفسیر آیات

ذوالقرنین کے کورش ہونے کی صورت میں اس پانی سے مراد ایشیائے کوچک کا مغربی ساحل ہو سکتا ہے اور چونکہ قرآنی تعبیر میں اس پانی کو چشمہ کہا گیا ہے۔ لہٰذا یہ کوئی خلیج یا نہر ہو سکتی ہے جو سمندر میں گر رہی ہو۔ کبھی سورج پہاڑ کے پیچھے غروب کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور کبھی سمندر کے پانی میں غروب کر رہا ہوتا ہے اور کبھی کسی کو صحرا میں زمین کی اوٹ میں جاتا ہوا نظر آتا ہے۔ ممکن ہے ذوالقرنین نے خشکی کی آخری حدود میں پہنچ کر دیکھا ہو کہ سورج پانی میں غروب ہو رہا ہے لیکن اس جگہ کی سو فیصد ہمارے پاس کوئی یقینی دلیل موجود نہیں ہے۔

یہ ممکن ہے وحی کے ذریعے ہو اور ممکن ہے الہام ہو یا زبان حال ہو اس لیے قُلۡنَا یٰذَا الۡقَرۡنَیۡنِ کے جملے سے نبوت ثابت نہیں ہوتی۔

اِمَّاۤ اَنۡ تُعَذِّبَ وَ اِمَّاۤ اَنۡ تَتَّخِذَ فِیۡہِمۡ حُسۡنًا: اس قوم کے ساتھ جو بھی سلوک اختیار کرنا ہو اسے ذوالقرنین کی صوابدید پر چھوڑ دینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ذوالقرنین اللہ کا بہت مقرب بندہ تھا۔ البتہ اس کی ایک توجیہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یہ کوئی حکم تشریعی نہ ہو بلکہ فاتح حکمران جب کسی قوم پر فتح حاصل کرتا ہے تو فاتح قوم کے اختیار میں ہوتا ہے وہ مفتوح قوم کو سزا دے یا اس کے ساتھ اچھا سلوک کرے لیکن یہ توجیہ درست نہیں ہے کیونکہ اس سے فاتح قوم کے ہر سلوک کو جائز قرار دینا لازم آتا ہے۔ لہٰذا یہ قبول کرنا پڑے گا کہ ذوالقرنین کے لیے یہ بھی روا تھا کہ وہ ان کے کفر اور ظلم کو قابل سرزنش قرار دے یا ان سے بہتر سلوک کرے۔

قَالَ اَمَّا مَنۡ ظَلَمَ: ذوالقرنین کا جواب بھی پیغمبرانہ ہے اور ظلم سے مراد شرک بھی ہو سکتا ہے:

اِنَّ الشِّرۡکَ لَظُلۡمٌ عَظِیۡمٌ (۳۱ لقمان: ۱۳)

یقینا شرک بہت بڑا ظلم ہے۔

اور کفر بھی ہو سکتا ہے چونکہ کفر بھی ظلم ہے۔ ظلم کے مقابلے میں ایمان کا ذکر ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ظلم سے مراد عدم ایمان ہے۔

ثُمَّ یُرَدُّ اِلٰی رَبِّہٖ : سے ظاہر ہوتا ہے کہ ذوالقرنین آخرت پر ایمان رکھنے والا موحد تھا۔

وَ سَنَقُوۡلُ لَہٗ مِنۡ اَمۡرِنَا یُسۡرًا: سے ظاہر ہوتا ہے کہ ذوالقرنین مؤمنین میں شریعت کے نفاذ کے لیے عدم تشدد کی حکمت عملی پر عمل پیرا تھے جو الٰہی شریعتوں کا امتیاز ہے:

یُرِیۡدُ اللّٰہُ بِکُمُ الۡیُسۡرَ وَ لَا یُرِیۡدُ بِکُمُ الۡعُسۡرَ ۔۔۔۔ (۲ بقرہ: ۱۸۵)

اللہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے اور تمہیں مشقت میں ڈالنا نہیں چاہتا۔


آیات 85 - 88