آیت 83
 

وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنۡ ذِی الۡقَرۡنَیۡنِ ؕ قُلۡ سَاَتۡلُوۡا عَلَیۡکُمۡ مِّنۡہُ ذِکۡرًا ﴿ؕ۸۳﴾

۸۳۔ اور لوگ آپ سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہدیجئے: جلد ہی اس کا کچھ ذکر تمہیں سناؤں گا۔

تشریح کلمات

ذِی الۡقَرۡنَیۡنِ:

دو سینگوں والا۔ یہ شخصیت کون ہے اور ان کو دو سینگوں والا کیوں کہا گیا؟ اس بارے میں مورخین اور مفسرین کے مختلف اقوال ہیں۔ ذوالقرنین دو سینگوں والا کی وجہ تسمیہ میں یہ بات زیادہ قرین قیاس ہے کہ خسرو نے سیڈیا اور فارس دونوں بادشاہتوں کو فتح کر لیا تھا۔ اس لیے دو سینگوں کا لقب دیا گیا اور سینگ اس زمانے میں طاقت کی نشانی ہو سکتی ہے۔ المیزان کے مطابق خسرو کا ایک مجسمہ ماضی قریب میں مرغاب جنوب ایران میں دریافت ہوا۔ اس میں اس کے تاج میں دو سینگ بھی ابھرے ہوئے نظر آتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس بادشاہ کو ذوالقرنین کہا گیا ہے۔

تفسیر آیات

یَسۡـَٔلُوۡنَکَ: پوچھنے والے کون لوگ تھے؟ محمد بن اسحاق کی روایت (اس روایت کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو مجمع البیان ذیل آیہ اصحاب کہف) سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سوالات کے اٹھانے والے یہود تھے۔ لہٰذا یہ سمجھنے کے لیے کہ ذوالقرنین سے مراد کون ہے؟ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ یہودیوں کے ہاں کس شخصیت کو ذوالقرنین کے عنوان سے شہرت حاصل تھی۔

جواب: یہودیوں کے ہاں جس عالمی فرماں روا کو ذوالقرنین کے نام سے شہرت حاصل تھی وہ ایران کے فرمان روا خسرو یا سائرس ہی ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ جب ۵۳۹؁ق م میں خسرو نے بابل کو فتح کیا تو اس نے بابل میں اسیر یہودیوں کو اپنے ملک واپس جانے کی اجازت دے دی جس کی وجہ سے یہودی دوبارہ اپنے وطن میں آباد ہوئے اور اسی خسرو نے یہودیوں کو ہیکل سلیمانی دوبارہ تعمیر کرنے کی اجازت دے دی، جو یہودیوں کی تاریخ میں ایک اہم ترین واقعہ ہے۔ لہٰذا زیادہ امکان یہی ہے کہ ذوالقرنین سے مراد خسرو ہی ہے۔

چنانچہ بنی اسرائیل کے بعض انبیاء کی طرف سے یہ پیشگوئی ملتی ہے:

خداوند اپنے ممسوح (کورش) خورس کے حق میں یوں فرماتا ہے کہ میں نے اس کا داہنا ہاتھ پکڑا کہ امتوں کو اس کے سامنے زیر کروں اور بادشاہوں کی کمریں کھلوا ڈالوں۔ (ملاحظہ ہو یسعیاہ ۴۵:۱ )

رہا یہ سوال کہ پھر مسلمانوں میں اس بات کو کیسے شہرت مل گئی کہ ذوالقرنین سے مراد سکندر مقدونی ہے؟ جواب یہ ہے کہ اسکندر اعظم کا تعلق تاریخ کی تدوین کے زمانے سے تھا۔ اس لیے سکندر مقدونی کا ذکر مدون تاریخ میں میسر تھا۔ ممکن ہے کہ ان مفسرین کو تاریخ میں سکندر مقدونی کے علاوہ کوئی عالمی حکمران نہ ملا ہو لہٰذا ناچار اسی کو ذوالقرنین قرار دیا ہو۔ چنانچہ فخر الدین رازی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:

والملک الذی اشتھر فی کتب التواریخ ان ملکہ بلغ ھذا المبلغ لیس الا الاسکندر ۔

اسکندر کے علاوہ کوئی ایسا بادشاہ نہیں گزرا جسے تاریخ کی کتابوں میں شہرت ملی ہو اور اس کی بادشاہت اس قدر وسیع ہو گئی ہو۔

جب کہ خسرو کا تعلق اس زمانے سے تھا جس کی تاریخ مدوّن نہ تھی۔ جدید دور میں چونکہ اس غیر مدون تاریخ کا بھی کھوج لگا لیا گیا ہے اس لیے جدید محققین کے لیے یہ ممکن ہو گیا ہے کہ قرآن و احادیث میں مذکور شخص کا تعین کیا جائے۔ ذوالقرنین سے مراد سکندر اس لیے بھی نہیں ہو سکتا کہ قرآن نے جس ذوالقرنین کے اوصاف کا ذکر کیا ہے وہ سکندر پر صادق نہیں آتے۔ مثلاً قرآن نے ذوالقرنین کو موحد اور آخرت پر ایمان لانے والا بتایا ہے جب کہ اسکندر بت پرست مشرک تھا۔ دوسری بات یہ کہ قرآن کہتا ہے کہ ذوالقرنین نیک اور منصف انسان تھا جب کہ سکندر ایک ظالم حکمران تھا۔ تیسری بات یہ ہے کہ تاریخ میں اس بات کا کہیں ذکر نہیں ملتا کہ سکندر نے کوئی بند تعمیر کیا ہو جب کہ قرآن کہتا ہے ذوالقرنین نے ایک بند تعمیر کیا تھا۔

جب کہ کورش موحد، عادل تھا۔ چنانچہ قدیم مسماری خطوط سے بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ موحد تھا، مشرک نہیں تھا۔


آیت 83