آیت 18
 

وَ جَآءُوۡ عَلٰی قَمِیۡصِہٖ بِدَمٍ کَذِبٍ ؕ قَالَ بَلۡ سَوَّلَتۡ لَکُمۡ اَنۡفُسُکُمۡ اَمۡرًا ؕ فَصَبۡرٌ جَمِیۡلٌ ؕ وَ اللّٰہُ الۡمُسۡتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوۡنَ﴿۱۸﴾

۱۸۔ چنانچہ وہ یوسف کے کرتے پر جھوٹا خون لگا کر لے آئے، یعقوب نے کہا: نہیں ، تم نے اپنے تئیں ایک بات بنائی ہے، پس میں بہت اچھے صبر کا مظاہرہ کروں گا اور جو بات تم بیان کر رہے ہو اس پر اللہ ہی سے مدد مطلوب ہے۔

تشریح کلمات

سَوَّلَتۡ:

( س و ل ) خوشنما بنا دینا، آمادہ کرنا۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ جَآءُوۡ عَلٰی قَمِیۡصِہٖ: روایات کے مطابق خود قمیص خون کے جھوٹا ہونے کی گواہی دے رہی تھی۔ چنانچہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے دیکھ کر فرمایا: بڑا ہوشمند بھیڑیا ہے کہ قمیص کو پھاڑے بغیر اس کے اندر موجود یوسف علیہ السلام کو کھا لیا۔ یوسف علیہ السلام کو بھیڑیا نے کھایا ہے، کوئی عضو تو بچا ہو گا؟

۲۔ قَالَ بَلۡ سَوَّلَتۡ لَکُمۡ اَنۡفُسُکُمۡ: بلکہ تم لوگوں نے یہ بات بنائی ہے۔ یوسف علیہ السلام کے خلاف ان لوگوں نے کوئی قدم اٹھایا ہے اور یہ قدم خاندان کے محافظین اور اپنے ہی قوت بازو کی طرف سے اٹھایا گیا ہے لہٰذا بہتر صبر کا مظاہرہ کرنے اور اللہ سے مدد طلب کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے۔

۳۔ فَصَبۡرٌ جَمِیۡلٌ: صبر جمیل کا مطلب یہ ہے کہ جو مصیبت اور بلا نازل ہو اسے خدائے رحمن و رحیم کا فیصلہ سمجھ کر قبول کرنا، اللہ کے فیصلے پر راضی ہونا، اسے اپنے خلاف فیصلہ تصور کر کے لب شکایت نہ کھولنا اور حواس باختہ نہ ہونا۔ البتہ اس مصیبت پر طبعی اثرات کا مترتب ہونا صبر کے خلاف نہیں ہے۔ صبر یہ نہیں کہ اس پر مصیبتوں کا کوئی اثر ہی نہ ہو۔ مثلاً اپنے بیٹے کے مفقود ہونے پر گریہ کرنا، دل میں دکھ کا احساس کرنا، صبر کے خلاف نہیں ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو یہ اس کے لیے مصیبت ہی نہیں ہے۔ لہٰذا حضرت یعقوب علیہ السلام کا گریہ صبر کے منافی نہیں ہے۔

۴۔ وَ اللّٰہُ الۡمُسۡتَعَانُ: صبر یہ ہے کہ مصیبتوں کے اثرات دل میں لیے اللہ کے فیصلے کو حق سمجھے اور اسی سے مدد طلب کرے۔

اہم نکات

۱۔صبر کا لازمی نتیجہ توکل بر خدا ہے: فَصَبۡرٌ جَمِیۡلٌ ؕ وَ اللّٰہُ الۡمُسۡتَعَانُ ۔۔۔۔

۲۔جھوٹ چھپ نہیں سکتا: بِدَمٍ کَذِبٍ ۔۔۔۔


آیت 18