آیت 15
 

فَلَمَّا ذَہَبُوۡا بِہٖ وَ اَجۡمَعُوۡۤا اَنۡ یَّجۡعَلُوۡہُ فِیۡ غَیٰبَتِ الۡجُبِّ ۚ وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡہِ لَتُنَبِّئَنَّہُمۡ بِاَمۡرِہِمۡ ہٰذَا وَ ہُمۡ لَا یَشۡعُرُوۡنَ﴿۱۵﴾

۱۵۔ پس جب وہ اسے لے گئے اور سب نے اتفاق کر لیا کہ اسے گہرے کنویں میں ڈال دیں اور ہم نے یوسف کی طرف وحی کی (کہ ایک دن ایسا آئے گا) کہ آپ ان کے پاس ان کے اس فعل (شنیع) کے بارے میں انہیں ضرور بتائیں گے جبکہ انہیں اس بات کا شعور تک نہیں ہو گا۔

تشریح کلمات

اَجۡمَعُوۡۤا:

پختہ عزم کے معنوں میں ہے۔ اَجۡمِعُوۡۤا اَمۡرَکُمۡ ( یونس: ۷۱ ) میں اس لفظ کی تشریح ملاحظہ ہو۔

تفسیر آیات

حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں میں ڈال رہے تھے تو طبیعی طور پر یوسف علیہ السلام پریشان تھے۔ اس وقت ان پر وحی نازل ہوئی کہ فکر نہ کرو وہ وقت آنے والا ہے کہ تم ان برادران کو جتلاؤ گے کہ تم نے یوسف علیہ السلام کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ یہ وحی، الہام کی بھی ہو سکتی ہے اور نبوت کی بھی۔ حضرت یوسف علیہ السلامجب کنویں میں ڈالے جا رہے تھے تو اس وقت نبوت کی منزل پر فائز ہوگئے تھے۔ اس صورت میں اسی سورۃ کی آیت ۲۲ میں فرمایا:

وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٗۤ اٰتَیۡنٰہُ حُکۡمًا وَّ عِلۡمًا ۔۔۔

اور جب یوسف اپنی جوانی کو پہنچے تو ہم نے انہیں علم اور حکمت عطا کی۔

اس میں حکمت اور علم سے مراد رسالت ہو سکتی ہے۔ جب جوانی کو پہنچے تو رسالت کے مقام پر فائز ہو گئے۔

اللہ تعالیٰ نے یوسف کو کنویں سے نجات ہی کی نہیں دی بلکہ یہ خوشخبری بھی سنائی کہ آخر میں وہ دن آنے والا ہے کہ یہ لوگ زیر ہوں گے اور تم ان کو ان کی اس کرتوت پر سرزنش کر رہے ہوں گے۔

اہم نکات

۱۔ حسد کرنے والے انجام بد کا شعور نہیں رکھتے۔

۲۔ مؤمن اللہ کی حمایت میں ہوتا ہے: وَ ہُمۡ لَا یَشۡعُرُوۡنَ ۔


آیت 15