آیت 20
 

وَ شَرَوۡہُ بِثَمَنٍۭ بَخۡسٍ دَرَاہِمَ مَعۡدُوۡدَۃٍ ۚ وَ کَانُوۡا فِیۡہِ مِنَ الزَّاہِدِیۡنَ﴿٪۲۰﴾

۲۰۔ اور انہوں نے یوسف کو تھوڑی سی قیمت معدودے چند درہموں کے عوض بیچ ڈالا اور وہ اس میں زیادہ طمع بھی نہیں رکھتے تھے۔

تشریح کلمات

البخس:

( ب خ س ) حقیر اور ناقص چیز کے معنوں میں ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ شَرَوۡہُ بِثَمَنٍۭ بَخۡسٍ: اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ یوسف علیہ السلام کو بیچنے والے کون تھے؟ بعض مفسرین کے مطابق برادران یوسف نے بیچ دیا۔ بائبل کے مطابق کنویں سے نکالنے والے مدین کے سوداگر ہی تھے اس لیے ان لوگوں نے اسماعیلی قافلے کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ تلمود کے مطابق مدین کے تاجروں کا برادران یوسف سے جھگڑا ہوا۔ چنانچہ بیس درہم دے کر برادران کو خاموش کرا دیا پھر اسی قیمت پر اسماعیلی قافلے کے ہاتھ فروخت کیا۔ اسماعیلی قافلے نے مصر لے جا کر فروخت کیا۔

ظاہرِ آیت سے معلوم ہوتا ہے جس قافلے نے حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں سے نکالا تھا اسی نے فروخت کیا۔ خواہ یہ قافلہ اسماعیلیوں کا ہو یا مدین والوں کا کیونکہ اول تو سلسلہ کلام اسی قافلے کے بارے میں جاری ہے لہٰذا دیگر ضمائر کی طرح شَرَوۡہُ کی ضمیر بھی اسی قافلے کی طرف جانا چاہیے۔ ثانیاً جن لوگوں نے یوسف علیہ السلام کو تجارتی سرمایہ بنا کر چھپا کر رکھا تھا وہی فروخت کرنے والے ہیں۔

۲۔ وَ کَانُوۡا فِیۡہِ مِنَ الزَّاہِدِیۡنَ: ثالثاً تھوڑی قیمت میں فروخت بھی اس لیے کیا گیا کہ مفت میں حاصل شدہ مال ہے اور مالک کی طرف سے دعوے کا خوف ہے یا اس لیے کم قیمت پر فروخت کیا ہو گا کہ انہیں علم ہوا ہو گا کہ یوسف علیہ السلام غلام نہیں ہیں اس لیے انہیں زیادہ قیمت ملنے کی توقع نہیں تھی۔

اہم نکات

۱۔نبی زادہ غلام بنتا ہے تاکہ ایک قوم کو غلامی سے آزاد کرائے۔


آیت 20