آیات 16 - 17
 

وَ جَآءُوۡۤ اَبَاہُمۡ عِشَآءً یَّبۡکُوۡنَ ؕ﴿۱۶﴾

۱۶۔ اور یہ لوگ رات کی ابتدا میں اپنے باپ کے پاس روتے ہوئے آئے ۔

قَالُوۡا یٰۤاَبَانَاۤ اِنَّا ذَہَبۡنَا نَسۡتَبِقُ وَ تَرَکۡنَا یُوۡسُفَ عِنۡدَ مَتَاعِنَا فَاَکَلَہُ الذِّئۡبُ ۚ وَ مَاۤ اَنۡتَ بِمُؤۡمِنٍ لَّنَا وَ لَوۡ کُنَّا صٰدِقِیۡنَ﴿۱۷﴾

۱۷۔ کہنے لگے: اے ابا جان!ہم دوڑ لگانے میں مصروف ہو گئے اور یوسف کو اپنے سامان کے پاس چھوڑ گئے تو اسے بھیڑیا کھا گیا اور آپ ہماری بات نہیں مانتے گو ہم سب سچے ہوں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ جَآءُوۡۤ اَبَاہُمۡ: کھیل کود پر جانے والے عموماً رات ہونے سے پہلے گھر واپس آتے ہیں۔ برادران یوسف باپ کو اپنی چھوٹی داستان باور کرانے کے لیے دیر سے عشاء کے وقت گھر واپس آئے اور اپنی گھڑی ہوئی داستان سنانا شروع کر دی۔

۲۔ قَالُوۡا یٰۤاَبَانَاۤ اِنَّا ذَہَبۡنَا: کہ ہم دوڑ مقابلے میں مصروف تھے۔ ظاہر ہے ان لوگوں نے اپنے زمانے میں رائج کھیل، دوڑ کے مقابلے کا ذکر کیا ہے۔

۳۔ وَ تَرَکۡنَا یُوۡسُفَ عِنۡدَ مَتَاعِنَا: ایسا کھیل جس میں یوسف علیہ السلام کی شرکت ممکن نہیں تھی۔ اس لیے یوسف کو سامان کے پاس چھوڑا تو بھیڑیا انہیں کھا گیا۔ چاہے ہم سچے ہوں ، آپ ہماری بات کو نہیں مانیں گے۔ یہ جملہ عموماً وہ لوگ کہتے ہیں جن کے پاس کوئی معقول عذر نہیں ہوتا۔ ممکن ہے یہ جملہ ان لوگوں نے اس وقت کہا ہو جب ان کی گھڑی ہوئی داستان یعقوب علیہ السلام کے لیے قابل قبول نہ تھی۔ چنانچہ بعد کی آیت میں جملہ: بَلۡ سَوَّلَتۡ لَکُمۡ اَنۡفُسُکُمۡ ’’ نہیں ، تم نے اپنے تئیں ایک بات بنائی ہے‘‘ سے ظاہر ہے کیونکہ حضرت یعقوب علیہ السلام جیسی فہم و فراست کے مالک اللہ کے پیغمبر کے سامنے کوئی جھوٹ بولتا ہے تو اس کے لب و لہجے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ جھوٹ بول رہا ہے۔ بائبل کی روایت کے مطابق حضرت یوسف علیہ السلام کو جب مصر لایا گیا تو اس وقت ان کی عمر ۱۷ سال تھی۔ اس روایت کے مطابق حضرت یوسف علیہ السلام کھیل کود میں شرکت کے قابل تھے۔ وَ تَرَکۡنَا یُوۡسُفَ عِنۡدَ مَتَاعِنَا ’’اور یوسف کو اپنے سامان کے پاس چھوڑ گئے‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ یوسف علیہ السلام دوسرے بھائیوں کی طرح دوڑنے کے قابل نہ تھے۔ چنانچہ حضرت جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ جب یوسف علیہ السلام زندان میں ڈالے گئے تو ان کی عمر بارہ سال تھی۔

۵۔ وَ مَاۤ اَنۡتَ بِمُؤۡمِنٍ لَّنَا: سے معلوم ہوتا ہے کہ برادران یوسف اپنے والد کے رد عمل سے دیکھ رہے تھے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کو ان کی مضطرب باتوں پر یقین نہیں آرہا۔

اہم نکات

۱۔ گھڑی ہوئی بات کرنے والا اضطراب کا شکار ہوتا ہے: وَ مَاۤ اَنۡتَ بِمُؤۡمِنٍ لَّنَا ۔۔۔۔


آیات 16 - 17