آیت 19
 

وَ جَآءَتۡ سَیَّارَۃٌ فَاَرۡسَلُوۡا وَارِدَہُمۡ فَاَدۡلٰی دَلۡوَہٗ ؕ قَالَ یٰبُشۡرٰی ہٰذَا غُلٰمٌ ؕ وَ اَسَرُّوۡہُ بِضَاعَۃً ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِمَا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۹﴾

۱۹۔ پھر ایک قافلہ آیا اور انہوں نے اپنا سقا بھیجا جس نے اپنا ڈول کنویں میں ڈالا (تو یوسف آویزاں نکلے) وہ بولا: کیا خوب ! یہ تو ایک لڑکا ہے اور انہوں نے اسے تجارتی سرمایہ بنا کر چھپا لیا اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں اللہ اس سے خوب باخبر ہے۔

تشریح کلمات

وَارِدَ:

تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ ہود آیت ۹۸

ادلی:

( د ل و ) ڈول کا کنویں میں ڈالنا۔

بِضَاعَۃً:

( ب ض ع ) مال کا وافر حصہ جو تجارت کے لیے الگ کر لیا گیا ہو۔ اصل میں یہ لفظ گوشت کے بڑے ٹکڑے کے لیے ہے۔ بعد میں سرمایہ کے ایک بڑے حصے کے لیے استعمال ہوا۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ جَآءَتۡ سَیَّارَۃٌ: قافلہ۔ زیادہ چلنے والا۔ جیسے جوالہ اور قناصۃ ہے۔ اس قافلے نے علاقے میں پانی تلاش کرنے کے لیے اپنے ایک تجربہ کار کو بھیجا۔ اس نے کنواں دیکھ کر اس میں اپنا ڈول ڈالا تو ایک لڑکا ڈول سے آویزاں دیکھا۔

۲۔ قَالَ یٰبُشۡرٰی: اس کا مطلب یہ ہے اے قوم بشارت ہو یا کا منادی محذوف رکھا جاتا ہے۔ یعنی ’’اے بشارت ہو‘‘ کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خود کو مراد لے کر بشارت کہنا مقصود ہو۔

۳۔ وَ اَسَرُّوۡہُ: اس زمانے میں بردہ فروشی عام تھی۔ اس لیے اس لڑکے کو ایک قابل اعتنا سرمایہ سمجھ کر پوشیدہ رکھا کہ یہ صاحب جمال لڑکا اچھی قیمت میں فروخت ہو جائے گا۔

اہم نکات

۱۔ جو امتحان کے کنویں کی اتھاہ تاریکی میں جاتا ہے وہ تخت و تاج کی بلند چوٹیوں کو چھوتا ہے۔


آیت 19