آٰلۡـٰٔنَ وَ قَدۡ عَصَیۡتَ قَبۡلُ وَ کُنۡتَ مِنَ الۡمُفۡسِدِیۡنَ﴿۹۱﴾

۹۱۔ (جواب ملا) اب (ایمان لاتا ہے) جب تو پہلے نافرمانی کرتا رہا اور فسادیوں میں سے تھا؟

91۔ وہ اسلام اور توبہ قبول نہیں جو موت اور عذاب سامنے آنے کے بعد اختیار کی جاتی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس فرعون کا نام منفتاح بن رمسیس 1225 ق م ہے۔ ڈاکٹر زحیلی کہتے ہیں: میں نے خود (قاہرہ کے میوزیم میں) اس ممی کا معائنہ کیا اور اس لاش کی پیشانی کی ہڈی پر بحر ابیض کے نمکین پانی کے اثرات کا بھی مشاہدہ کیا ہے۔ (تفسیر منیر) اور سر گرافٹن الیٹ سمتھ نے اس ممی پر سے جب پٹیاں کھولی تھیں تو اس کی لاش پر نمک کی ایک تہ جمی ہوئی پائی گئی جو کھارے پانی میں اس کی غرقابی کی ایک کھلی علامت ہے۔ (تفہیم القرآن)

فَالۡیَوۡمَ نُنَجِّیۡکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوۡنَ لِمَنۡ خَلۡفَکَ اٰیَۃً ؕ وَ اِنَّ کَثِیۡرًا مِّنَ النَّاسِ عَنۡ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوۡنَ﴿٪۹۲﴾

۹۲۔ پس آج ہم تیری لاش کو بچائیں گے تاکہ تو بعد میں آنے والوں کے لیے عبرت کی نشانی بنے، اگرچہ بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل رہتے ہیں۔

وَ لَقَدۡ بَوَّاۡنَا بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ مُبَوَّاَ صِدۡقٍ وَّ رَزَقۡنٰہُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ ۚ فَمَا اخۡتَلَفُوۡا حَتّٰی جَآءَہُمُ الۡعِلۡمُ ؕ اِنَّ رَبَّکَ یَقۡضِیۡ بَیۡنَہُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ فِیۡمَا کَانُوۡا فِیۡہِ یَخۡتَلِفُوۡنَ﴿۹۳﴾

۹۳۔ بتحقیق ہم نے بنی اسرائیل کو خوشگوار ٹھکانے فراہم کیے اور انہیں پاکیزہ رزق سے نوازا پھر انہوں نے اختلاف نہیں کیا یہاں تک کہ ان کے پاس علم آ گیا، آپ کا رب قیامت کے دن ان کے درمیان یقینا ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں یہ لوگ اختلاف کرتے رہے ہیں۔

93۔ خوشگوار ٹھکانے سے مقصود فلسطینی سرزمین ہے جس کی شادابی اور اچھی پیداوار آج بھی مشہور ہے۔ حق تو یہ تھا کہ غلامی اور سختی سے نجات دلا کر فلسطین جیسی جنت ارضی پر تمکنت اور اقتدار دینے پر شکر الٰہی بجا لاتے، لیکن انہوں نے اس نعمت کے شکرانے کی بجائے دین میں اختلاف اور تفرقہ بازی کی۔اس تفرقہ بازی کی علت قوانین الہی سے لاعلمی نہیں تھی بلکہ مادی خواہشات کی تکمیل کے لیے دینی نصوص کی غلط تشریح تھی۔

فَاِنۡ کُنۡتَ فِیۡ شَکٍّ مِّمَّاۤ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ فَسۡـَٔلِ الَّذِیۡنَ یَقۡرَءُوۡنَ الۡکِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۚ لَقَدۡ جَآءَکَ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکَ فَلَا تَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡمُمۡتَرِیۡنَ ﴿ۙ۹۴﴾

۹۴۔اگر آپ کو اس بات میں کوئی شبہ ہے جو ہم نے آپ پر نازل کی ہے تو ان لوگوں سے پوچھ لیں جو آپ سے پہلے کتاب پڑھ رہے ہیں، بتحقیق آپ کے رب کی طرف سے آپ کے پاس حق آ چکا ہے لہٰذا آپ ہرگز شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں۔

94۔ کسی بات کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان کرنا ہو یا اس پر وارد ہونے والے شکوک و شبہات کو رد کرنا مقصود ہو تو یہ تعبیر اختیار کی جاتی ہے جیسا کہ فرمایا: قُلۡ اِنۡ کَانَ لِلرَّحۡمٰنِ وَلَدٌ ٭ۖ فَاَنَا اَوَّلُ الۡعٰبِدِیۡنَ (زخرف: 81) کہ دیجیے کہ اگر رحمن کا کوئی بیٹا ہوتا تو میں سب سے پہلے اس کا عبادت گزار بن جاتا۔ یہ اس بات کی وضاحت کے لیے ہے کہ اللہ کا کوئی بیٹا نہیں ہو سکتا۔ اسی طریقۂ تعبیر کے مطابق فرمایا: اگر شک ہے تو کتاب پڑھنے والوں سے پوچھیں۔ یعنی یہاں شک کی گنجائش نہیں ہے۔ لہٰذا آیت سے یہ بات ہرگز ظاہر نہیں ہوتی کہ حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنی نبوت کے بارے میں شک تھا۔ حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بات کیا، ان کے شاگرد رشید حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے: ما شککت فی الحق منذ رایتہ ۔ (الارشاد 1: 253) جب سے میں نے حق کو دیکھا ہے، کبھی شک نہیں کیا۔

وَ لَا تَکُوۡنَنَّ مِنَ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ فَتَکُوۡنَ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ﴿۹۵﴾

۹۵۔ اور ہرگز ان لوگوں میں سے نہ ہوں جنہوں نے اللہ کی نشانیوں کی تکذیب کی ورنہ آپ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوں گے۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ حَقَّتۡ عَلَیۡہِمۡ کَلِمَتُ رَبِّکَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿ۙ۹۶﴾

۹۶۔ جن لوگوں کے بارے میں آپ کے رب کا فیصلہ قرار پا چکا ہے وہ یقینا ایمان نہیں لائیں گے۔

وَ لَوۡ جَآءَتۡہُمۡ کُلُّ اٰیَۃٍ حَتّٰی یَرَوُا الۡعَذَابَ الۡاَلِیۡمَ﴿۹۷﴾

۹۷۔ اگرچہ ان کے پاس ہر قسم کی نشانی آ جائے جب تک دردناک عذاب نہ دیکھ لیں۔

96۔97 جنہیں عذاب میں ڈالنے کا فیصلہ ہو چکا ہے وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ فیصلہ اس لیے ہو چکا ہے کہ اپنی طغیانی و سرکشی کی وجہ سے وہ ایمان لانے کی استعداد اور صلاحیت کھو چکے تھے، ان پر کوئی معجزہ اثر کرتا ہے نہ دلائل و براہین۔ صرف یہ کہ عذاب کا مشاہدہ کرنے پر ان کو یقین آئے گا، مگر اضطراری عمل ایمان نہیں ہے۔

فَلَوۡ لَا کَانَتۡ قَرۡیَۃٌ اٰمَنَتۡ فَنَفَعَہَاۤ اِیۡمَانُہَاۤ اِلَّا قَوۡمَ یُوۡنُسَ ؕ لَمَّاۤ اٰمَنُوۡا کَشَفۡنَا عَنۡہُمۡ عَذَابَ الۡخِزۡیِ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ مَتَّعۡنٰہُمۡ اِلٰی حِیۡنٍ﴿۹۸﴾

۹۸۔ کیا کوئی بستی ایسی ہے کہ (بروقت) ایمان لائی ہو اور اس کا ایمان اس کے لیے سودمند ثابت ہوا ہو سوائے قوم یونس کے؟ جب وہ ایمان لائے تو ہم نے دنیا کی زندگی میں رسوائی کا عذاب ان سے ٹال دیا اور ایک مدت تک انہیں (زندگی سے) بہرہ مند رکھا۔

98۔ غالباً ایسا تو ہوتا رہا ہے کہ مختلف علاقوں اور بستیوں میں انبیاء آتے رہے، لوگوں کو راہ حق کی طرف دعوت دی مگر لوگوں نے انبیاء کی تکذیب کی اور عذاب الہٰی سے ڈرانے اور عذاب کے آثار دکھانے پر بھی ایمان لانے کے لیے آمادہ نہ ہوئے، سوائے قوم یونس کے کہ جب عذاب کے آثار نمایاں ہوئے تو وہ ایمان لے آئے اور ان سے عذاب ٹل گیا۔ اس طرح ان کا ایمان سود مند ثابت ہوا۔

وَ لَوۡ شَآءَ رَبُّکَ لَاٰمَنَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ کُلُّہُمۡ جَمِیۡعًا ؕ اَفَاَنۡتَ تُکۡرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ﴿۹۹﴾

۹۹۔اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام اہل زمین ایمان لے آتے، پھر کیا آپ لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کر سکتے ہیں؟

99۔ اگر اللہ چاہتا تو تمام اہل ارض کو مومن بنا دیتا اور ان سے کفر اختیار کرنے کی قدرت سلب کر لیتا۔ اگر اللہ ایسا چاہتا تو انسان کو کفر و ایمان کے درمیان کھڑا نہ کرتا اور ان دونوں میں سے ایک کو اپنی مرضی سے ترجیح دینے کی صلاحیت نہ دیتا۔ اس صورت میں وہ ایمان لانے پر مجبور ہو جاتے۔ لیکن اس قسم کا جبری ایمان اللہ کو منظور نہیں: ”تو کیا آپ لوگوں کو مجبور کر سکتے ہیں کہ وہ ایمان لے آئیں۔“؟

وَ مَا کَانَ لِنَفۡسٍ اَنۡ تُؤۡمِنَ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ وَ یَجۡعَلُ الرِّجۡسَ عَلَی الَّذِیۡنَ لَا یَعۡقِلُوۡنَ﴿۱۰۰﴾

۱۰۰۔ اور کوئی شخص اللہ کے اذن کے بغیر ایمان نہیں لا سکتا اور جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے اللہ انہیں پلیدی میں مبتلا کر دیتا ہے۔

100۔ یہ ترجیح دینا اگرچہ انسان کا اپنا عمل ہے تاہم وہ اس عمل کو اللہ کی طرف سے فراہم شدہ اسباب و علل کے ذریعے ہی انجام دے سکتا ہے۔ یہی اذن خدا ہے اور یہی خود مختاری ہے اور یہی امر بین امرین ہے۔ مزید تشریح ہماری تفسیر میں مذکور ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے: اَلرِّجْسُ ھُوَ الشَّکُّ وَ اللّٰہِ لَا نَشُکُّ فِی رَبِّنَا اَبَداً ۔ رجس سے مراد شک ہے اور ہم اپنے رب کے بارے میں کبھی شک نہیں کرتے۔ (الکافی 1: 286)