فَلَمَّاۤ اَلۡقَوۡا قَالَ مُوۡسٰی مَا جِئۡتُمۡ بِہِ ۙ السِّحۡرُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ سَیُبۡطِلُہٗ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُصۡلِحُ عَمَلَ الۡمُفۡسِدِیۡنَ﴿۸۱﴾

۸۱۔ پس جب انہوں نے ڈالا تو موسیٰ نے کہا: جو کچھ تم نے پیش کیا ہے وہ جادو ہے، اللہ یقینا اسے نابود کر دے گا، بے شک اللہ مفسدوں کے کام نہیں سدھارتا۔

79 تا 81۔ معجزات حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعونیوں نے سحر کہ کر مسترد کیا تھا۔ آج حضرت موسیٰ علیہ السلام کو سحر کی نشاندہی کا موقع ملا اور فرمایا سحر تو یہ ہے جو تم پیش کر رہے ہو۔ صرف نگاہوں کا دھوکہ، حقائق سے عاری۔ کوئی مشن نہ کوئی پیغام، نہ کوئی انسانی تحریک۔ ایسے جادو کو اللہ خود نابود کر دے گا۔ جبکہ اللہ کفار و فاسقین کی ہدایت نہیں کرتا۔ ایسے مفسدوں کے کام نہیں سدھارتا۔

وَ یُحِقُّ اللّٰہُ الۡحَقَّ بِکَلِمٰتِہٖ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُجۡرِمُوۡنَ﴿٪۸۲﴾

۸۲ ۔ اور اللہ اپنے فیصلوں سے حق کو ثابت کر دکھاتا ہے خواہ مجرموں کو ناگوار گزرے۔

82۔ کلمات سے مراد اللہ کا تکوینی ارادہ یا وعدہ فتح و نصرت یا معجزات و دلائل ہیں۔ یعنی اللہ اپنے فیصلوں کے ذریعے حق کو دوام و ثبات فراہم کرتا اور باطل کو نابود کرتا ہے۔

فَمَاۤ اٰمَنَ لِمُوۡسٰۤی اِلَّا ذُرِّیَّۃٌ مِّنۡ قَوۡمِہٖ عَلٰی خَوۡفٍ مِّنۡ فِرۡعَوۡنَ وَ مَلَا۠ئِہِمۡ اَنۡ یَّفۡتِنَہُمۡ ؕ وَ اِنَّ فِرۡعَوۡنَ لَعَالٍ فِی الۡاَرۡضِ ۚ وَ اِنَّہٗ لَمِنَ الۡمُسۡرِفِیۡنَ﴿۸۳﴾

۸۳۔ چنانچہ موسیٰ پر ان کی اپنی قوم کے چند افراد کے سوا کوئی ایمان نہ لایا، فرعون اور اس کے سرداروں کے خوف کی وجہ سے کہ کہیں وہ انہیں مصیبت سے دوچار نہ کر دیں کیونکہ ملک میں فرعون کی بالادستی تھی اور وہ حد سے بڑھا ہوا تھا۔

83۔ قرآن اس خوف کے پیچھے دو اسباب بیان فرماتا ہے:ایک یہ کہ فرعون کو اس ملک میں بالادستی حاصل تھی اور دوسری بات یہ کہ وہ کسی قانون و اخلاق یا انسانی اقدار کی حدود و قیود کا قائل نہ تھا۔ ایمان کی تاریخ ہمیشہ ایسے لوگوں نے لکھی ہے جو جابروں کے ظلم و تشدد کی پرواہ کیے بغیر ایمان لے آتے ہیں۔

ذُرِّیَّۃٌ سے مراد بعض نے کمزور اور بے آسرا لیا ہے۔ ممکن ہے ذُرِّیَّۃٌ سے مراد جواں سال افراد ہوں کیونکہ کم عمر لوگ ہی ایسے معاملات میں پاک باطن ہوتے ہیں اور فرعونیت کی پرواہ کیے بغیر ایمان لے آتے اور استقامت دکھاتے ہیں۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ابو جعفر ابو الاحول سے فرمایا: کیا تو بصرہ گیا تھا؟ عرض کیا جی ہاں! فرمایا: لوگوں کی ہمارے مکتب میں شمولیت کیسی تھی؟ عرض کیا :بہت کم۔ فرمایا: علیک بالأحداث فانہم اسرع الی کل خیر ۔تم نئی نسل پر توجہ دو۔ کیونکہ یہی لوگ ہر کارِ خیر کی طرف سبقت لے جاتے ہیں۔ (کافی 8 : 93)

وَ قَالَ مُوۡسٰی یٰقَوۡمِ اِنۡ کُنۡتُمۡ اٰمَنۡتُمۡ بِاللّٰہِ فَعَلَیۡہِ تَوَکَّلُوۡۤا اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّسۡلِمِیۡنَ﴿۸۴﴾

۸۴۔اور موسیٰ نے کہا: اے میری قوم! اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو تو اسی پر بھروسا کرو اگر تم مسلمان ہو۔

فَقَالُوۡا عَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلۡنَا ۚ رَبَّنَا لَا تَجۡعَلۡنَا فِتۡنَۃً لِّلۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۙ۸۵﴾

۸۵۔ پس انہوں نے کہا:ہم نے اللہ پر بھروسہ کیا ہے، اے ہمارے رب! ہمیں ظالموں کے لیے (ذریعہ) آزمائش نہ بنا۔

وَ نَجِّنَا بِرَحۡمَتِکَ مِنَ الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۸۶﴾

۸۶۔ اور اپنی رحمت سے ہمیں کافر قوم سے نجات عطا فرما۔

84 تا 86۔ توکل اور بھروسا ایمان کے بعد بہت بڑی طاقت ہے جس کے ساتھ طاغوت کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اللہ پر توکل کا مطلب یہ ہے کہ اپنی طرف سے تمام امور اللہ کے سپرد کیے جائیں اور نتیجہ اسی پر چھوڑ دیا جائے۔ ظاہری علل و اسباب کو اگرچہ تمہیدی دخل ہے لیکن منزل مقصود تک جانے کے لیے توکل کی ضرورت ہے۔ یہاں توکل کے لیے دو باتوں کو بنیاد بنایا ہے: ایک یہ کہ ایمان ہو۔ ظاہر ہے کہ ایمان باللہ کے بغیر توکل علی اللّٰہ کا تصور ہو ہی نہیں سکتا۔ دوسری بات یہ کہ تسلیم کی منزل پر ہو کہ اللہ کے ہر فیصلے کو تسلیم و رضا سے لیا جائے۔ موسیٰ علیہ السلام کے جواب میں اہل ایمان نے کہا : ہم اللہ پر توکل کرتے اور دو چیزوں کی اللہ سے درخواست کرتے ہیں: پہلی درخواست یہ کہ ظالم ہمیں اپنے دین و مذہب سے منحرف کرنے کے لیے ہمیں تختہ مشق نہ بنا پائیں، دوسری یہ کہ ان کافروں سے نجات دے۔

وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی مُوۡسٰی وَ اَخِیۡہِ اَنۡ تَبَوَّاٰ لِقَوۡمِکُمَا بِمِصۡرَ بُیُوۡتًا وَّ اجۡعَلُوۡا بُیُوۡتَکُمۡ قِبۡلَۃً وَّ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ ؕ وَ بَشِّرِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۸۷﴾

۸۷۔ اور ہم نے موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی کہ مصر میں اپنی قوم کے لیے مکانات مہیا کرو اور اپنے مکانوں کو قبلہ بناؤ اور نماز قائم کرو اور مومنوں کو بشارت دو۔

87۔ ظاہر آیت سے جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کو اللہ کی طرف سے یہ حکم ملا کہ بنی اسرائیل کے لیے مکانات تعمیر کریں اور اپنے گھروں کو قبلہ بنائیں۔ قرآنی اصطلاح میں قبلہ اس مکان کو کہتے ہیں جس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی جائے اور اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ اس بات پر قرینہ ہے کہ قبلہ سے یہی معنی مراد ہے۔ لیکن بحار الانوار اور مستدرک الوسائل کی روایت سے صرف یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بنی اسرائیل کو حکم ہوا کہ ان گھروں میں نماز پڑھیں، ممکن ہے گھر تعمیر کرنے کا حکم اسی لیے ہوا ہو کہ فرعونیوں کی نظروں سے پوشیدہ ہو کر نماز قائم کی جائے۔

وَ قَالَ مُوۡسٰی رَبَّنَاۤ اِنَّکَ اٰتَیۡتَ فِرۡعَوۡنَ وَ مَلَاَہٗ زِیۡنَۃً وَّ اَمۡوَالًا فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۙ رَبَّنَا لِیُضِلُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِکَ ۚ رَبَّنَا اطۡمِسۡ عَلٰۤی اَمۡوَالِہِمۡ وَ اشۡدُدۡ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ فَلَا یُؤۡمِنُوۡا حَتّٰی یَرَوُا الۡعَذَابَ الۡاَلِیۡمَ﴿۸۸﴾

۸۸۔ اور موسیٰ نے عرض کی: اے ہمارے رب! تو نے فرعون اور اس کے درباریوں کو دنیاوی زندگی میں زینت بخشی اور دولت سے نوازا ہے ہمارے رب! کیا یہ اس لیے ہے کہ یہ لوگ (دوسروں کو ) تیری راہ سے بھٹکائیں؟ ہمارے رب! ان کی دولت کو برباد کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کر دے تاکہ یہ لوگ دردناک عذاب کا سامنا کرنے تک ایمان نہ لائیں۔

88۔ یہ دعائے بد اس وقت کی گئی جب ہر قسم کے دلائل و معجزات دکھانے کے باوجود وہ اپنے کفر پر اڑے رہے اور آئندہ ایمان لانے کی امید بھی باقی نہ رہی۔ یہ بد دعا بالکل اسی طریقہ پر ہے جو خود اللہ تعالیٰ اختیار فرماتا ہے کہ حجت پوری ہونے پر بھی کفر پر جمے رہیں تو پھر انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے، ان کا ہاتھ نہیں تھامتا، انہیں توفیق نہیں دیتا اور دعا کا مضمون بھی یہی ہے۔

قَالَ قَدۡ اُجِیۡبَتۡ دَّعۡوَتُکُمَا فَاسۡتَقِیۡمَا وَ لَا تَتَّبِعٰٓنِّ سَبِیۡلَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۸۹﴾

۸۹۔ اللہ نے فرمایا: تم دونوں کی دعا قبول کی گئی ہے پس تم دونوں ثابت قدم رہنا اور ان لوگوں کے راستے پر نہ چلنا جو علم نہیں رکھتے ۔

89۔ کافی میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ فرعون اس دعا کے بعد چالیس سال تک زندہ رہا۔

وَ جٰوَزۡنَا بِبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ الۡبَحۡرَ فَاَتۡبَعَہُمۡ فِرۡعَوۡنُ وَ جُنُوۡدُہٗ بَغۡیًا وَّ عَدۡوًا ؕ حَتّٰۤی اِذَاۤ اَدۡرَکَہُ الۡغَرَقُ ۙ قَالَ اٰمَنۡتُ اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیۡۤ اٰمَنَتۡ بِہٖ بَنُوۡۤا اِسۡرَآءِیۡلَ وَ اَنَا مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ﴿۹۰﴾

۹۰۔ اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے گزار دیا تو فرعون اور اس کے لشکر نے سرکشی اور زیادتی کرتے ہوئے ان کا تعاقب کیا، یہاں تک کہ جب فرعون غرق ہونے لگا تو کہنے لگا: میں ایمان لے آیا کہ اس ذات کے سوا کوئی معبود نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں مسلمانوں میں سے ہو گیا ہوں۔

90۔ فرعون جب مرا تو بنی اسرائیل کی نظریاتی بالادستی قبول کر کے مرا۔