آیات 94 - 95
 

فَاِنۡ کُنۡتَ فِیۡ شَکٍّ مِّمَّاۤ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ فَسۡـَٔلِ الَّذِیۡنَ یَقۡرَءُوۡنَ الۡکِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۚ لَقَدۡ جَآءَکَ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکَ فَلَا تَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡمُمۡتَرِیۡنَ ﴿ۙ۹۴﴾

۹۴۔اگر آپ کو اس بات میں کوئی شبہ ہے جو ہم نے آپ پر نازل کی ہے تو ان لوگوں سے پوچھ لیں جو آپ سے پہلے کتاب پڑھ رہے ہیں، بتحقیق آپ کے رب کی طرف سے آپ کے پاس حق آ چکا ہے لہٰذا آپ ہرگز شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں۔

وَ لَا تَکُوۡنَنَّ مِنَ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ فَتَکُوۡنَ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ﴿۹۵﴾

۹۵۔ اور ہرگز ان لوگوں میں سے نہ ہوں جنہوں نے اللہ کی نشانیوں کی تکذیب کی ورنہ آپ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوں گے۔

تفسیر آیات

۱۔ فَاِنۡ کُنۡتَ فِیۡ شَکٍّ: اگر آپ کو شک لاحق ہے، رسول اللہ( ص) کو شک لاحق نہیں ہو سکتا۔ یہاں لفظ اِن استعمال ہوا ہے جو اکثر و بیشتر وہاں استعمال ہوتا ہے جہاں واقعہ وجود میں نہ آیا ہو اور کبھی وہاں استعمال ہوا ہے جہاں واقعہ وجود میں آنا محال اور ناممکن ہے۔ جیسے:

قُلۡ اِنۡ کَانَ لِلرَّحۡمٰنِ وَلَدٌ ٭ۖ فَاَنَا اَوَّلُ الۡعٰبِدِیۡنَ﴿﴾ (۴۳ الزخرف:۸۱)

کہدیجیے: اگر رحمن کی کوئی اولاد ہوتی تو میں سب سے پہلے (اس کی) عبادت کرنے والا ہوتا۔

دوسری جگہ فرمایا:

وَ اِنۡ کَانَ کَبُرَ عَلَیۡکَ اِعۡرَاضُہُمۡ فَاِنِ اسۡتَطَعۡتَ اَنۡ تَبۡتَغِیَ نَفَقًا فِی الۡاَرۡضِ اَوۡ سُلَّمًا فِی السَّمَآءِ ۔۔۔ (۶ انعام: ۳۵)

اور ان لوگوں کی بے رخی اگر آپ پر گراں گزرتی ہے توآپ سے ہو سکے تو زمین میں کوئی سرنگ یا آسمان میں کوئی سیڑھی تلاش کریں۔۔۔۔

ظاہر ہے یہ دونوں کام ممکن نہیں ہیں۔ اللہ کے لیے اولاد ہوناناممکن ہے، اسی طرح رسول اللہؐ کے لیے اس بات میں شک گزرنا بھی ناممکن ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگرچہ مخاطب رسول ؐ ہیں لیکن دوسروں کو سمجھانا مقصود ہے۔ اگر کسی کو شک ہے تو اس شک کو دور کرنے کا ذریعہ موجود ہے۔ وہ ہے توریت و انجیل۔ قرآن میں نوح اور موسیٰ علیہما السلام کے بارے میں جو مطالب بیان کیے ہیں وہ ان کتابوں میں ہیں یا نہیں ؟

۲۔ لَقَدۡ جَآءَکَ الۡحَقُّ: سابقہ کتب آسمانی کی طرف رجوع کرنے سے یہ بات واضح ہو جائے گی کہ آپؐ کے پاس وہ حق آیا ہے جس میں کسی قسم کے شک کے لیے گنجائش نہیں ہے۔

۳۔ فَلَا تَکُوۡنَنَّ: اس آیت میں فرمایا: آیات الٰہی کی تکذیب ایک ایسا جرم ہے کہ جس سے بھی صادر ہو جائے، بفرض محال آپؐ سے بھی صادر ہو جائے تو آپ ؐزندگی کے سرمائے سے محروم ہو کر نقصان اور خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔ تکذیب ایک جرم ہے کہ اس کے بارے میں اس ذات کو بھی خبردار کیا جا رہا ہے جس کے لیے تکذیب کا سوچنا بھی ناممکن ہے۔

اہم نکات

۱۔ شک کا فرض کر لینے سے کبھی یقین حاصل ہو جاتا ہے۔ مثلاً،

۲۔ اگر شک ہے تو متعلقہ ماہرین سے سوال کرنا چاہیے۔


آیات 94 - 95