آیات 96 - 97
 

اِنَّ الَّذِیۡنَ حَقَّتۡ عَلَیۡہِمۡ کَلِمَتُ رَبِّکَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿ۙ۹۶﴾

۹۶۔ جن لوگوں کے بارے میں آپ کے رب کا فیصلہ قرار پا چکا ہے وہ یقینا ایمان نہیں لائیں گے۔

وَ لَوۡ جَآءَتۡہُمۡ کُلُّ اٰیَۃٍ حَتّٰی یَرَوُا الۡعَذَابَ الۡاَلِیۡمَ﴿۹۷﴾

۹۷۔ اگرچہ ان کے پاس ہر قسم کی نشانی آ جائے جب تک دردناک عذاب نہ دیکھ لیں۔

تفسیر آیات

۱۔ اِنَّ الَّذِیۡنَ حَقَّتۡ عَلَیۡہِمۡ کَلِمَتُ رَبِّکَ: کَلِمَتُ رَبِّکَ کا مطلب رب کا فیصلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ازل سے یہ فیصلہ ہے:

اَفَمَنۡ کَانَ مُؤۡمِنًا کَمَنۡ کَانَ فَاسِقًا ؕؔ لَا یَسۡتَوٗنَ﴿﴾ (۳۲ السجدۃ:۱۸)

بھلا جو مومن ہو وہ فاسق کی طرح ہو سکتا ہے؟ یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔

مؤمن اور فاسق برابر نہیں ہوسکتے۔ جب حضرت آدم ؑکو زمین پر بسایا: قُلۡنَا اہۡبِطُوۡا مِنۡہَا جَمِیۡعًا (۲ بقرۃ: ۳۸) اس وقت یہ فیصلہ سنا دیا تھا:

وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ﴿﴾ ( ۲ بقرة: ۳۹)

اور جو لوگ کفر کریں اور ہماری آیات کو جھٹلائیں وہی دوزخ والے ہوں گے، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

اس حکم کلی کا فیصلہ پہلے سے ہو چکا ہے۔ اس حکم کلی کی تطبیق جن لوگوں پر ہو گی ان کے بارے میں فرمایا: حَقَّتۡ عَلَیۡہِمۡ کَلِمَتُ رَبِّکَ ۔ آپ کے رب کا قدیم فیصلہ ان پر ثابت ہو گیا۔ اللہ کا کلی فیصلہ ان پر لاگو ہو گیا۔

یہ غلط فہمی نہ ہو کہ اللہ نے فیصلہ کر رکھا تھا یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔ اس فیصلے کی وجہ سے وہ ایمان نہیں لا سکتے۔ اللہ تعالیٰ کسی کے ایمان کے سامنے رکاوٹ نہیں ڈالتا۔ اللہ تعالیٰ کی شان اس سے اعلیٰ و ارفع ہے کہ کسی کو اس کی وحدانیت اور ربوبیت پر ایمان لانے کی اجازت نہ دے، پھر بعد میں ایمان نہ لانے پر عذاب میں ڈالے جیسا کہ مذہب جبریہ کا نظریہ ہے۔

بنی امیہ کے دور میں حکمرانوں نے اپنے مظالم کے جواز کے لیے یہ نظریہ بنوا لیا کہ سب کچھ اللہ کرتا ہے بندے کے اختیار میں نہیں ہے۔ صاحب تفسیر روح المعانی کا اس آیت کے ذیل میں اضطراب قابل مطالعہ ہے۔ کہتے ہیں:

والذی علیہ اھل السنۃ ان افعال العباد باسرھا معلومۃ لہ تعالی و مرادۃ ولا یکون الاما ارادہ و علمہ و ارادتہ متوافقان لا تجوز المخالفۃ بینہما ۔

جس موقف کو اہل سنت نے اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ بندوں کے تمام افعال کا اللہ کو علم ہے اور ارادہ بھی ہے اور ہوتا وہی ہے جس کا اللہ ارادہ کرے۔ اللہ کا علم اور ارادہ باہم متفق ہے۔ ان دونوں میں اختلاف ممکن نہیں ہے۔

جب اللہ کا علم اور ارادہ ایک ہے، یہی جبر ہے کہ اللہ کو علم ہے ابوجہل ایمان نہیں لائے گا اور اللہ کی مراد بھی یہی ہے کہ ابوجہل ایمان نہ لائے تو ابوجہل ایمان نہ لانے پر مجبور ہوا۔ اگر ابوجہل اس کے باوجود ایمان لے آئے تو اللہ کا ارادہ عاجز رہ گیا۔ لہٰذا ابوجہل ایمان نہ لانے پر مجبور ہے۔ اس طرح اپنے مذہب جبر کی وضاحت کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

و لا جبر ھناک ولا تفویض بل امر بین امرین ۔

جبر درست ہے نہ تفویض بلکہ ان دونوں کے درمیان ایک تیسری صورت ہے۔

نہ جبر، نہ تفویض شیعہ امامیہ کا موقف ہے۔ صاحب روح المعانی نے اپنے مذہب جبر پر شیعہ امامیہ کا نعرہ استعمال کر کے نظریہ جبر کی پردہ پوشی کی کوشش کی ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے: لا جبر و لا تفویض بل امر بین الامرین ۔ (الکافی ۱: ۱۶۰)

اہم نکات

۱۔ بالآخر اللہ پر ایمان سب لائیں گے۔ اختیاری ہو یا اضطراری۔


آیات 96 - 97