فرقہ بندی اور ناشکری


وَ لَقَدۡ بَوَّاۡنَا بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ مُبَوَّاَ صِدۡقٍ وَّ رَزَقۡنٰہُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ ۚ فَمَا اخۡتَلَفُوۡا حَتّٰی جَآءَہُمُ الۡعِلۡمُ ؕ اِنَّ رَبَّکَ یَقۡضِیۡ بَیۡنَہُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ فِیۡمَا کَانُوۡا فِیۡہِ یَخۡتَلِفُوۡنَ﴿۹۳﴾

۹۳۔ بتحقیق ہم نے بنی اسرائیل کو خوشگوار ٹھکانے فراہم کیے اور انہیں پاکیزہ رزق سے نوازا پھر انہوں نے اختلاف نہیں کیا یہاں تک کہ ان کے پاس علم آ گیا، آپ کا رب قیامت کے دن ان کے درمیان یقینا ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں یہ لوگ اختلاف کرتے رہے ہیں۔

93۔ خوشگوار ٹھکانے سے مقصود فلسطینی سرزمین ہے جس کی شادابی اور اچھی پیداوار آج بھی مشہور ہے۔ حق تو یہ تھا کہ غلامی اور سختی سے نجات دلا کر فلسطین جیسی جنت ارضی پر تمکنت اور اقتدار دینے پر شکر الٰہی بجا لاتے، لیکن انہوں نے اس نعمت کے شکرانے کی بجائے دین میں اختلاف اور تفرقہ بازی کی۔اس تفرقہ بازی کی علت قوانین الہی سے لاعلمی نہیں تھی بلکہ مادی خواہشات کی تکمیل کے لیے دینی نصوص کی غلط تشریح تھی۔