آیت 93
 

وَ لَقَدۡ بَوَّاۡنَا بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ مُبَوَّاَ صِدۡقٍ وَّ رَزَقۡنٰہُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ ۚ فَمَا اخۡتَلَفُوۡا حَتّٰی جَآءَہُمُ الۡعِلۡمُ ؕ اِنَّ رَبَّکَ یَقۡضِیۡ بَیۡنَہُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ فِیۡمَا کَانُوۡا فِیۡہِ یَخۡتَلِفُوۡنَ﴿۹۳﴾

۹۳۔ بتحقیق ہم نے بنی اسرائیل کو خوشگوار ٹھکانے فراہم کیے اور انہیں پاکیزہ رزق سے نوازا پھر انہوں نے اختلاف نہیں کیا یہاں تک کہ ان کے پاس علم آ گیا، آپ کا رب قیامت کے دن ان کے درمیان یقینا ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں یہ لوگ اختلاف کرتے رہے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَقَدۡ بَوَّاۡنَا: اس خوشگور ٹھکانے سے مراد فلسطین کی سرزمین ہے جس کی شادابی اور خوش آب و ہوا اور اچھی پیداوار آج بھی مشہور ہے۔ حق تو یہ تھا کہ مصر کی غلامی سے نجات دلا کر فلسطین جیسی سر سبز و شاداب سر زمین پر تمکنت دینے کا شکر الٰہی ادا کرتے مگر ان لوگوں نے دین میں اختلاف کیا اور تفرقہ بازی کی۔ جس کی ان سے قیامت کے دن باز پرس ہو گی۔

۲۔ فَمَا اخۡتَلَفُوۡا: اس جملے کی ایک تفسیر یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبعوث برسالت ہونے سے پہلے آپؐ کی رسالت کا اقرار کرتے تھے لیکن جب آپؐ مبعوث ہوگئے اور اس بات کا علم ان کے پاس آگیا کہ نبی آخر الزمان مبعوث ہو چکے ہیں تو اختلاف کیا۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ یہود کے پاس توریت آنے کے بعد اختلاف کیا۔ بعض ایمان لے آئے اور بعض نے کفر اختیار کیا۔

۳۔ اِنَّ رَبَّکَ یَقۡضِیۡ بَیۡنَہُمۡ: قیامت کے دن ہی ان کے اختلاف کا فیصلہ ہو سکتا ہے چونکہ دنیا میں اختلافات کو ختم کرنے کے لیے ان کے پاس علم آگیا تو اسی علم ہی کے بارے میں اختلاف کرنے لگے۔

اہم نکات

۱۔ ان لوگوں کا انجام بہت برا ہو گا جنہوں نے علم و دولت ملنے کے بعد انحراف کیا۔


آیت 93