اللہ کے لیے اولاد کی نفی


فَاِنۡ کُنۡتَ فِیۡ شَکٍّ مِّمَّاۤ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ فَسۡـَٔلِ الَّذِیۡنَ یَقۡرَءُوۡنَ الۡکِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۚ لَقَدۡ جَآءَکَ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکَ فَلَا تَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡمُمۡتَرِیۡنَ ﴿ۙ۹۴﴾

۹۴۔اگر آپ کو اس بات میں کوئی شبہ ہے جو ہم نے آپ پر نازل کی ہے تو ان لوگوں سے پوچھ لیں جو آپ سے پہلے کتاب پڑھ رہے ہیں، بتحقیق آپ کے رب کی طرف سے آپ کے پاس حق آ چکا ہے لہٰذا آپ ہرگز شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں۔

94۔ کسی بات کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان کرنا ہو یا اس پر وارد ہونے والے شکوک و شبہات کو رد کرنا مقصود ہو تو یہ تعبیر اختیار کی جاتی ہے جیسا کہ فرمایا: قُلۡ اِنۡ کَانَ لِلرَّحۡمٰنِ وَلَدٌ ٭ۖ فَاَنَا اَوَّلُ الۡعٰبِدِیۡنَ (زخرف: 81) کہ دیجیے کہ اگر رحمن کا کوئی بیٹا ہوتا تو میں سب سے پہلے اس کا عبادت گزار بن جاتا۔ یہ اس بات کی وضاحت کے لیے ہے کہ اللہ کا کوئی بیٹا نہیں ہو سکتا۔ اسی طریقۂ تعبیر کے مطابق فرمایا: اگر شک ہے تو کتاب پڑھنے والوں سے پوچھیں۔ یعنی یہاں شک کی گنجائش نہیں ہے۔ لہٰذا آیت سے یہ بات ہرگز ظاہر نہیں ہوتی کہ حضور ﷺ کو اپنی نبوت کے بارے میں شک تھا۔ حضور ﷺ کی بات کیا، ان کے شاگرد رشید حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے: ما شککت فی الحق منذ رایتہ ۔ (الارشاد 1: 253) جب سے میں نے حق کو دیکھا ہے، کبھی شک نہیں کیا۔