آیت 98
 

فَلَوۡ لَا کَانَتۡ قَرۡیَۃٌ اٰمَنَتۡ فَنَفَعَہَاۤ اِیۡمَانُہَاۤ اِلَّا قَوۡمَ یُوۡنُسَ ؕ لَمَّاۤ اٰمَنُوۡا کَشَفۡنَا عَنۡہُمۡ عَذَابَ الۡخِزۡیِ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ مَتَّعۡنٰہُمۡ اِلٰی حِیۡنٍ﴿۹۸﴾

۹۸۔ کیا کوئی بستی ایسی ہے کہ (بروقت) ایمان لائی ہو اور اس کا ایمان اس کے لیے سودمند ثابت ہوا ہو سوائے قوم یونس کے؟ جب وہ ایمان لائے تو ہم نے دنیا کی زندگی میں رسوائی کا عذاب ان سے ٹال دیا اور ایک مدت تک انہیں (زندگی سے) بہرہ مند رکھا۔

تفسیر آیات

۱۔ فَلَوۡ لَا: قوم یونس کا واقعہ اس طرح ہوا:

حضرت یونسؑ عراق میں نینویٰ کے علاقے موصل میں مبعوث ہوئے۔ اپنی قوم کو ایمان کی دعوت دیتے رہے۔ قوم نے ان کی تکذیب کی تو حضرت یونس ؑنے کہا: اگر تم توبہ نہ کرو گے تو تین دن میں تم پر عذاب نازل ہو گا۔ حضرت یونسؑ علاقے سے نکل گئے۔ تیسرے روز صبح کے وقت دیکھا آسمان پر سیاہ بادل چھا گیا جس سے شدید قسم کا دھواں نکل رہا تھا۔ انہوں نے اپنے نبی یونسؑ کو تلاش کیا۔ نہیں ملے تو بروایتے ایک عالم کی ہدایت پر سب لوگ صحرا میں نکل گئے اور اولاد کو ماؤں سے جدا کیا۔ مویشوں کی بھی ماؤں سے اولاد کو جدا کیا۔ فریاد کا شور مچا۔ سب نے ایمان قبول کیا اور توبہ کی جس سے عذاب ٹل گیا۔ (مجمع البیان)

۲۔ غالباً ایسے تو ہوتا رہا کہ مختلف علاقوں اور بستیوں میں انبیاء آتے رہے۔ لوگوں کو راہ حق کی طرف دعوت دی مگر لوگوں نے انبیاء ؑ کی تکذیب کی اور عذاب الٰہی سے ڈرانے اور عذاب کے آثار دکھانے پر بھی ایمان لانے کے لیے آمادہ نہ ہوئے سوائے قوم یونس کے کہ جب عذاب کے آثار نمایاں ہوئے تو وہ ایمان لے آئی اور اس سے عذاب ٹل گیا۔ اس طرح اس کا ایمان سود مند ثابت ہوا۔


آیت 98