آیت 92
 

فَالۡیَوۡمَ نُنَجِّیۡکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوۡنَ لِمَنۡ خَلۡفَکَ اٰیَۃً ؕ وَ اِنَّ کَثِیۡرًا مِّنَ النَّاسِ عَنۡ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوۡنَ﴿٪۹۲﴾

۹۲۔ پس آج ہم تیری لاش کو بچائیں گے تاکہ تو بعد میں آنے والوں کے لیے عبرت کی نشانی بنے، اگرچہ بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل رہتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ قرآن مجید کی متعدد آیات میں پوری وضاحت کے ساتھ دو باتیں بیان ہوئی ہیں :

i۔ وہ اسلام اور توبہ قبول نہیں ہے جو موت اور عذاب کا سامنا کرنے پر بجا لائی جاتی ہے۔

ii۔ وہ ایمان بھی قبول نہیں ہے جو اضطراری حالت میں مشروط طور پر لایا جاتا ہے۔ لہٰذا فرعون کا حالت غرق کا ایمان یا تو اضطراری، مشروط ایمان تھا کہ بنی اسرائیل کی طرح اس کو بھی غرق ہونے سے نجات مل جائے یا موت نظر آنے کی وجہ سے ایمان کا اظہار تھا۔ دونوں صورتوں میں اس کو ایمان تسلیم نہیں کیا جاتا۔

۲۔ فَالۡیَوۡمَ نُنَجِّیۡکَ بِبَدَنِکَ: البتہ آیت میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون کی لاش کو بچا لیا تاکہ لوگ مشاہدہ کریں کہ وہ پانی میں غرق ہو کر مر گیا ہے ورنہ ممکن تھا لوگ اس کی موت کو تسلیم ہی نہ کرتے اور توہمات و خرافات کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا کیونکہ مصریوں کے عقیدے کے مطابق فراعنہ کی نسل خدائی اوتار تھی۔بادشاہ سب سے بڑے دیوتا سورج کا نمائندہ ہوتا تھا اور اس کی پوجا کرنا خود سورج دیوتا کی پوجا سمجھی جاتی تھی۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس فرعون کا نام متاح بن رمسیس ۱۲۲۵ قبل مسیح ہے۔ ڈاکٹر زحیلی کہتے ہیں میں نے خود قاہرہ کے میوزیم میں فرعون کی ممی کا معائنہ کیا اور اس لاش کی پیشانی کی ہڈی پر بحر ابیض کے نمکین پانی کے اثرات کا بھی مشاہدہ کیا ہے۔ ( التفسیر المنیر ۱۱: ۲۶۰)

تفہیم القرآن میں اس آیۂ کے ذیل میں لکھتے ہیں:

اگر ڈوبنے والا وہی فرعون منفۃ ہے جس کو زمانۂ حال کی تحقیق نے فرعون موسیٰ قرار دیا ہے تو اس کی لاش قاہرہ کے عجائب خانے میں موجود ہے۔ ۱۹۰۷؁ء میں سرگرافٹن الیٹ سمتھ نے اس کی ممی پر سے جب پٹیاں کھولی تھیں تو اس کی لاش پر نمک کی ایک تہ جمی ہوئی پائی گئی تھی جوکھاری پانی میں اس کی غرقابی کی ایک کھلی علامت تھی۔

۲۔ لِتَکُوۡنَ لِمَنۡ خَلۡفَکَ اٰیَۃً: فرعون کے مردہ بدن کو سمندر میں ناپید ہونے سے اس لیے بچایا کہ فرعون کے ماننے والوں کے لیے نشان عبرت بننے کے علاوہ یہ بات واضح ہو جائے کہ فرعون مرگیا ہے ورنہ وہ اس کے مرنے کے تصدیق نہ کرتے اور یہ عقیدہ رکھتے کہ بڑے دیوتا کا نمائندہ مر نہیں سکتا اور اس کی پوجا پاٹ جاری رکھتے۔

۳۔ عَنۡ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوۡنَ: اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو گمراہی سے بچانے کے لیے ہر موقع پر دلیل، نشانی، معجزہ قائم فرمایا ہے۔ جس طرح فرعون کی پوجا سے بچانے کے لیے اس کی لاش کو بچایا لیکن لوگ معجزات و دلائل پر توجہ نہیں دیتے۔

اہم نکات

۱۔ زندگی سے ناامید ہونے کے موقع پر ایمان کا اظہار اللہ کو دھوکہ دینے کا مترادف ہے۔

۲۔ فرعون کے غرق میں انبیاء اور ان کی شریعت کی تکذیب کرنے والوں کے لیے ایک عبرت ہے۔


آیت 92