وَ مَا کَانَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ لِیَنۡفِرُوۡا کَآفَّۃً ؕ فَلَوۡ لَا نَفَرَ مِنۡ کُلِّ فِرۡقَۃٍ مِّنۡہُمۡ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوۡا فِی الدِّیۡنِ وَ لِیُنۡذِرُوۡا قَوۡمَہُمۡ اِذَا رَجَعُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ لَعَلَّہُمۡ یَحۡذَرُوۡنَ﴿۱۲۲﴾٪

۱۲۲۔اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سب کے سب مومنین نکل کھڑے ہوں، پھر کیوں نہ ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے تاکہ وہ دین کی سمجھ پیدا کریں اور جب اپنی قوم کی طرف واپس آئیں تو انہیں تنبیہ کریں تاکہ وہ (ہلاکت خیز باتوں سے) بچے رہیں۔

122۔ یہ آیت دینی تعلیم کے لیے ایک دستور وضع کرتی ہے: یہ تو ہو نہیں سکتا کہ تمام مومنین دینی تعلیم یا جہاد کے لیے نکل کھڑے ہوں۔ ایسا کرنا ممکن نہیں۔ لہٰذا کیوں نہ ان کے ہر گروہ سے ایک جماعت علمی مراکز کی طرف سفر کرے، جہاں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد واپس آئے اور اپنی قوم کو تعلیم دے۔ تفقہ فی الدین دین کی سمجھ سے مراد صرف اصطلاحی فقہ نہیں ہے بلکہ اسلامی نظام حیات کا فہم و ادراک ہے۔ بالفاظ دیگر ہر وہ علم جو مسلمانوں کے لیے دین و دنیا میں فائدہ مند ہو دینی علم ہے۔ ہاں استعمار نے علم کو علم دین اور علوم دنیا میں تقسیم کیا ہے۔