آیات 124 - 125
 

وَ اِذَا مَاۤ اُنۡزِلَتۡ سُوۡرَۃٌ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّقُوۡلُ اَیُّکُمۡ زَادَتۡہُ ہٰذِہٖۤ اِیۡمَانًا ۚ فَاَمَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فَزَادَتۡہُمۡ اِیۡمَانًا وَّ ہُمۡ یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ﴿۱۲۴﴾

۱۲۴۔اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو ان میں سے کچھ لوگ (از راہ تمسخر) کہتے ہیں: اس سورت نے تم میں سے کس کے ایمان میں اضافہ کیا ہے؟ پس ایمان والوں کے ایمان میں تو اس نے اضافہ ہی کیا ہے اور وہ خوشحال ہیں۔

وَ اَمَّا الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ فَزَادَتۡہُمۡ رِجۡسًا اِلٰی رِجۡسِہِمۡ وَ مَا تُوۡا وَ ہُمۡ کٰفِرُوۡنَ﴿۱۲۵﴾

۱۲۵۔ اور البتہ جن کے دلوں میں بیماری ہے ان کی نجاست پر اس نے مزید نجاست کا اضافہ کیا ہے اور وہ مرتے دم تک کفر پر ڈٹے رہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اِذَا مَاۤ اُنۡزِلَتۡ سُوۡرَۃٌ: منافقین اپنے دل کی کیفیت پر دوسروں کو قیاس کرتے ہوئے یہ خیال کرتے تھے کہ جس طرح ان کے دلوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہے، کسی کے دل پر بھی اس کا کوئی اثر مترتب نہیں ہو رہا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس تصور کی رد میں فرمایا کہ سارے دل یکساں نہیں ہوتے۔ قرآن اگرچہ سب کے لیے ہدایت ہے لیکن اس سے فیض لینے والے یکساں نہیں۔ آفتاب سب کو نور دیتا ہے، بارش سب کو فیض دیتی ہے لیکن فیض لینے والے یکساں نہیں ہوتے۔ مؤمن کا دل زرخیز ہوتا ہے۔

۲۔ وَّ ہُمۡ یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ: اس پر قرآنی بارش جس قدر زیادہ ہو گی، اتنی ہی اس میں شادابی آئے گی۔

۳۔ وَ اَمَّا الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ: جب کہ منافق کا دل شورہ زار ہے۔ اس پر قرآنی بارش جس قدر زیادہ برسے گی، اتنا ہی اس کی شورہ زاری میں اضافہ ہو گا۔ ہر جدید سورہ ایک معجزہ، ایک رہنمائی ایک حیات بخش دستور لے کر آتا ہے تو مؤمن کا دل ایمان کے نور سے اور منور ہوتا ہے۔ جب کہ کافر پہلے بھی شک میں تھا، جدید سورے میں بھی شک کرتا ہے تو اس کے شک اور خباثت میں اور اضافہ ہوتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ قرآن سے مؤمن کے ایمان اور منافق کے شک میں اضافہ ہوتا ہے۔

۲۔ دل کی بیماری سخت تر، اس کا علاج مشکل، اس کی دوا کمیاب اور اس کے طبیب کمیاب ہوتے ہیں۔


آیات 124 - 125