آیت 123
 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قَاتِلُوا الَّذِیۡنَ یَلُوۡنَکُمۡ مِّنَ الۡکُفَّارِ وَ لۡیَجِدُوۡا فِیۡکُمۡ غِلۡظَۃً ؕ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الۡمُتَّقِیۡنَ﴿۱۲۳﴾

۱۲۳۔ اے ایمان والو! ان کافروں سے جنگ کرو جو تمہارے نزدیک ہیں اور چاہیے کہ وہ تمہارے اندر ٹھوس شدت کا احساس کریں اور جان رکھو اللہ متقین کے ساتھ ہے۔

تشریح کلمات

غِلۡظَۃً:

( غ ل ظ ) شدت طاقت ور ( غلاظ شداد )

تفسیر آیات

اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر سرحدی علاقے کے لوگوں پر واجب ہے کہ اپنا دفاع کرتے ہوئے قریب کے کافروں سے جنگ کریں اگر علاقے میں اسلام خطرے میں پڑ جائے۔ (طوسی۔ التبیان ۵ : ۳۲۴)

اس سلسلے میں اس بات تاکید ہوئی کہ وَ لۡیَجِدُوۡا فِیۡکُمۡ غِلۡظَۃً دشمن کو یہ محسوس ہونا چاہیے کہ تم اپنے مؤقف میں کسی قسم کی کوئی لچک نہیں رکھتے۔ نہ سودا بازی ہو سکتی ہے، نہ کوئی سازش کامیاب ہو سکتی ہے۔ دشمن ہمیشہ اپنے مدمقابل کا کمزور پہلو تلاش کرتا ہے۔ اسی سے وہ حملہ کرتا ہے اور جب وہ یہ دیکھے کہ مسلمانوں میں کوئی کمزور پہلو نہیں ہے، وہ ناکام ہوجائے گا۔

واضح رہے غِلۡظَۃً کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان تند خوئی، بد مزاجی اور بد اخلاقی سے پیش آئے بلکہ غِلۡظَۃً یہ ہے کہ جرات و بہادری اور سازش ناپذیری سے پیش آئے۔

اہم نکات

۱۔ دشمنانِ اسلام کے مقابلے میں ہمارے معاصر مسلمانوں کی ناکامی اسی ٹھوس مؤقف کے نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔


آیت 123