آیت 122
 

وَ مَا کَانَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ لِیَنۡفِرُوۡا کَآفَّۃً ؕ فَلَوۡ لَا نَفَرَ مِنۡ کُلِّ فِرۡقَۃٍ مِّنۡہُمۡ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوۡا فِی الدِّیۡنِ وَ لِیُنۡذِرُوۡا قَوۡمَہُمۡ اِذَا رَجَعُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ لَعَلَّہُمۡ یَحۡذَرُوۡنَ﴿۱۲۲﴾٪

۱۲۲۔اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سب کے سب مومنین نکل کھڑے ہوں، پھر کیوں نہ ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے تاکہ وہ دین کی سمجھ پیدا کریں اور جب اپنی قوم کی طرف واپس آئیں تو انہیں تنبیہ کریں تاکہ وہ (ہلاکت خیز باتوں سے) بچے رہیں۔

تشریح کلمات

لِیَنۡفِرُوۡا:

نَفَرَ ( ن ف ر ) اگر مِنْ اور عَنْ کے ساتھ نفر منہ او عنہ تو دوری اور متفرق ہونے کے معنی میں ہے اور اگر اِلَی کے ساتھ نَفَر الیہ تو نکلنے اور روانہ ہونے کے معنی میں ہے۔

کَآفَّۃً:

( ک ف ف ) سب کے سب اور تمام کے معنی میں ہے۔

لولا:

اس آیت میں یہ لفظ تشویق و ترغیب کے لیے ہے۔

لِّیَتَفَقَّہُوۡا:

الفقہ ( ف ق ہ ) العلم بالشیٔ کسی چیز پر علم اور فہم کے معنی میں ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ لِیَنۡفِرُوۡا کَآفَّۃً: سب مؤمنین پر نکلنا واجب نہیں ہے۔ اس کی دو تفسیریں ہیں :

الف: یہ جہاد سے مربوط ہے کہ تمام مؤمنین پر جہاد کے لیے نکلنا واجب نہیں ہے بلکہ ہر گروہ اور قبیلے سے ایک جماعت جہاد پر نکلنے کی بجائے دینی تعلیم کے لیے نکلے۔ اس صورت میں دینی تعلیم حاصل کرنے والوں پر دوران تعلیم جہاد واجب نہیں ہے۔

ب: یہ آیت دینی تعلیم کے لیے ایک دستور ہے کہ یہ تو ہو نہیں سکتا سب مؤمنین دینی تعلیم کے لیے نکلیں۔ ایسا کرنے سے نظام زندگی درہم برہم ہو جاتا ہے۔ لہٰذا کیوں نہ ان کے ہر گروہ اور قبیلے سے ایک جماعت علمی مراکز کی طرف سفر کرے کہ دینی تعلیم حاصل کر کے واپس آئے اور اپنی قوم کو تعلیم دے۔

جہاد اور تعلیم کے لیے ایک تعبیر نفر استعمال کرنے سے اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ تعلیم بھی جہالت کے خلاف ایک جہاد ہے نیز اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ حصول تعلیم کے لیے وطن سے دور جانا پڑے تو جانا ہو گا۔

۲۔ فَلَوۡ لَا نَفَرَ: لو لا چونکہ تشویق اور ترغیب کے لیے ہے لہٰذا اس سے طلب علم کے لیے نکلنا واجب ثابت ہوتا ہے۔ جیسے

لَوۡ لَا تَسۡتَغۡفِرُوۡنَ اللّٰہَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ ( ۲۷ نمل : ۴۶)

تم اللہ سے مغفرت کیوں طلب نہیں کرتے ہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

یعنی استغفار کرو تم پر رحم کیا جائے گا۔ البتہ علم کے لیے نکلنا واجب کفائی ہے کہ کچھ لوگوں کے انجام دینے سے باقی سے ساقط ہو جاتا ہے۔

۳۔ لِّیَتَفَقَّہُوۡا فِی الدِّیۡنِ: تاکہ وہ دین میں سمجھ حاصل کریں۔ دین کی سمجھ حاصل کرنا تو سب پر واجب ہے لیکن تعلیم کے لیے سفر کرنا سب کے لیے ممکن نہیں ہے تو ایک جماعت یہ فریضہ انجام دے اور سفر کر کے دینی تعلیم حاصل کرے، واپس آنے پر دوسروں کو دینی تعلیم دے اور دوسروں پر واجب ہے کہ وہ ان سے دینی تعلیم حاصل کریں۔

الفقہ قرآنی اصطلاح میں مطلق سمجھ اور فہم کے لیے استعمال ہوتا ہے:

قَدۡ فَصَّلۡنَا الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّفۡقَہُوۡنَ (۶ انعام: ۹۸)

ہم نے سمجھنے والوں کے لیے نشانیاں تفصیل کے ساتھ بیان کی ہیں۔

لہٰذا اس آیت میں اصول و فروع، حلال و حرام پر مشتمل تمام دینی تعلیمات کی فہم مراد ہے۔ بعد میں فقہاء کی اصطلاح میں فقہ کا لفظ حلال و حرام کے لیے مختص ہو گیا۔

۴۔ وَ لِیُنۡذِرُوۡا قَوۡمَہُمۡ: دینی سمجھ حاصل کرنے والوں پر واجب ہے کہ وہ اپنی قوم، جس معاشرے میں وہ رہتے ہیں ، کے لیے دینی احکام بیان کریں۔ یہاں لِیُنۡذِرُوۡا میں انذار (تنبیہ) کا لفظ استعمال ہوا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ جن احکام کو یہ لوگ بیان کریں گے ان پر عمل کرنا واجب ہے ورنہ انذار (تنبیہ) بے سود ہو گی۔

۵۔ لَعَلَّہُمۡ یَحۡذَرُوۡنَ: تاکہ وہ بچے رہیں ، سے بھی واضح ہوتا ہے کہ ان کے بیان کردہ احکام پر عمل کرنا واجب ہے۔

اہم نکات

۱۔ دینی تعلیم حاصل کرنے والی جماعت پوری قوم کی طرف سے واجب کفائی بجا لا رہی ہوتی ہے: فَلَوۡ لَا نَفَرَ مِنۡ کُلِّ فِرۡقَۃٍ ۔۔۔۔

۲۔ ہر قوم کو اس کے علاقے میں دینی تعلیم کی سہولت میسر آنی چاہیے: لِیُنۡذِرُوۡا قَوۡمَہُمۡ اِذَا رَجَعُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ ۔۔۔۔


آیت 122