آیت 127
 

وَ اِذَا مَاۤ اُنۡزِلَتۡ سُوۡرَۃٌ نَّظَرَ بَعۡضُہُمۡ اِلٰی بَعۡضٍ ؕ ہَلۡ یَرٰىکُمۡ مِّنۡ اَحَدٍ ثُمَّ انۡصَرَفُوۡا ؕ صَرَفَ اللّٰہُ قُلُوۡبَہُمۡ بِاَنَّہُمۡ قَوۡمٌ لَّا یَفۡقَہُوۡنَ﴿۱۲۷﴾

۱۲۷۔اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں کہ کوئی تمہیں دیکھ تو نہیں رہا؟ پھر نکل کر بھاگتے ہیں، اللہ نے ان کے دلوں کو پھیر رکھا ہے کیونکہ یہ ناسمجھ لوگ ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ نَّظَرَ بَعۡضُہُمۡ: رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں حاضر منافقوں کی منافقانہ روش کا ذکر ہے کہ جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے حاضرین کو پڑھ کر سنا دیتے ہیں تو جہاں مؤمنین کے دل خشوع و خضوع سے سرشار ہوتے ہیں ، منافقین کے چہروں پر اضطراب اور شکوک و شبہات کے آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں۔ نَّظَرَ بَعۡضُہُمۡ اِلٰی بَعۡضٍ اور وہ آپس میں نگاہوں میں ایک دوسرے سے یہ کہ رہے ہوتے ہیں ہَلۡ یَرٰىکُمۡ مِّنۡ اَحَدٍ کہ کہیں ہماری اس کیفیت کو کوئی دیکھ تو نہیں رہا، پھر وہ اس مجلس سے کھسک جاتے ہیں۔

۲۔ ثُمَّ انۡصَرَفُوۡا: وہ رسولؐ کی محفل سے اس لیے کھسک جاتے تھے کہ یا تو نورانی محفل میں منافق کو سکون نہیں ملتا یا اس لیے کہ بعض آیات کی تلاوت سے ان کے چہروں پر انکار و اضطراب کے آثار نمایاں ہونے تھے، اس کے فاش ہونے کے خوف سے کھسک جاتے تھے۔

۳۔ صَرَفَ اللّٰہُ قُلُوۡبَہُمۡ: منافقین کے اپنے جرائم کے نتیجہ میں اللہ ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔ نتیجتاً ان کے دل راہ حق سے پھر جاتے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ منافق کو ایمانی محفلوں میں چین نہیں آتا: انۡصَرَفُوۡا ۔۔۔۔


آیت 127