وَ اَمَّا الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ فَزَادَتۡہُمۡ رِجۡسًا اِلٰی رِجۡسِہِمۡ وَ مَا تُوۡا وَ ہُمۡ کٰفِرُوۡنَ﴿۱۲۵﴾

۱۲۵۔ اور البتہ جن کے دلوں میں بیماری ہے ان کی نجاست پر اس نے مزید نجاست کا اضافہ کیا ہے اور وہ مرتے دم تک کفر پر ڈٹے رہے۔

124۔125۔ منافق اپنے دل کی کیفیت پر دوسروں کو قیاس کرتے ہوئے یہ خیال کرتے تھے کہ جس طرح ان کے دل پر اس کا کوئی اثر نہیں ہے، اسی طرح کسی کے دل پر اس کا کوئی اثر مترتب نہیں ہو رہا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس تصور کی رد میں فرمایا کہ سارے دل یکساں نہیں ہوتے۔ اگرچہ قرآن سب کے لیے ہدایت ہے مگر اس سے فیض لینے والے یکساں نہیں۔ آفتاب سب کو نور دیتاہے، بارش سب کے لیے فیض دیتی ہے، لیکن فیض لینے والے یکساں نہیں ہوتے۔ مومن کا دل زرخیز ہوتا ہے اس پر قرآنی بارش جس قدر زیادہ برسے گی اتنی ہی اس میں شادابی آئے گی جب کہ منافق کا دل شورہ زار ہے، اس پر قرآنی بارش جس قدر زیادہ برسے گی اتنا ہی اس کی شورہ زاری میں اضافہ ہو گا۔ یعنی ہر جدید سورہ ایک معجزہ، ایک رہنمائی، ایک حیات بخش دستور لے کر آتا ہے تو مومن کا دل ایمان کے نور سے اور منور ہوتا ہے، جبکہ کافر پہلے بھی شک میں تھا، جدید سورہ میں بھی شک کرتا ہے تو اس کے شک اور خباثت میں اور اضافہ ہوتا ہے۔