آیت 82
 

فَلۡیَضۡحَکُوۡا قَلِیۡلًا وَّ لۡیَبۡکُوۡا کَثِیۡرًا ۚ جَزَآءًۢ بِمَا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ﴿۸۲﴾

۸۲۔ پس انہیں چاہیے کہ کم ہنسا کریں اور زیادہ رویا کریں، یہ ان کے اعمال کا بدلہ ہے جو وہ کرتے رہے ہیں۔

تفسیر آیات

فَلۡیَضۡحَکُوۡا قَلِیۡلًا: اس فضیحت و رسوائی کے بعد اس دنیا کی زندگی میں بھی ان منافقوں کو خوشی نصیب نہ ہو گی۔ ان لوگوں نے رسولؐ کا ساتھ چھوڑنے پر جو خوشیاں منائی تھیں ، اس کی پاداش میں وہ رویا کریں گے۔ دو دن کی خوشی کی پاداش میں تازیست رونا ہو گا۔

یہ فرمان کہ کم ہنسا کریں اور روئیں زیادہ، ایک دستور عام اور کلی حکم نہیں ہے بلکہ یہ بات ان لوگوں کے ساتھ مخصوص ہے جنہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ چھوڑا اور منافقت کا ارتکاب کیا۔ اگرچہ مؤمن کو خوف خدا میں زیادہ رونا اور ہنسی مذاق کم کرنا چاہیے لیکن یہ آیت اس قسم کے رونے اور ہنسنے کے بیان میں نہیں ہے۔ آیت منافقین کے جرائم کی سزا کے ذکر میں ہے۔

حدیث میں آیا ہے:

کثرۃ الضحک تذہب بماء الوجہ ۔ ( الکافی ۲: ۶۶۴۔ باب الدعابۃ )

زیادہ ہنسنے سے آبرو جاتی ہے۔

اہم نکات

۱۔ جرم کا ارتکاب کر کے بدمستی کرنے والوں کو ہمیشہ رونا پڑتا ہے۔


آیت 82