آیت 84
 

وَ لَا تُصَلِّ عَلٰۤی اَحَدٍ مِّنۡہُمۡ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمۡ عَلٰی قَبۡرِہٖ ؕ اِنَّہُمۡ کَفَرُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ مَا تُوۡا وَ ہُمۡ فٰسِقُوۡنَ﴿۸۴﴾

۸۴۔ اور ان میں سے جو کوئی مر جائے اس پر آپ کبھی بھی نماز نہ پڑھیں اور نہ ہی اس کی قبر پر کھڑے ہوں، انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اور وہ نافرمانی کی حالت میں مرے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَا تُصَلِّ عَلٰۤی اَحَدٍ مِّنۡہُمۡ: ان منافقین میں سے جو مر جائے اس پر آپ کبھی بھی اَبَدًا نماز نہ پڑھیں۔ چونکہ منافقین پر بظاہر اسلامی احکام جاری ہوتے تھے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان پر بھی نماز پڑھا کرتے تھے لیکن اس آیت کے نازل ہونے کے بعد بعض روایات کے مطابق حضورؐ نے کسی منافق پر نماز نہیں پڑھی۔ البتہ بعض اہل سنت اور شیعہ مصادر میں آیا ہے کہ آپ نے عبد اللہ بن ابی پر نماز پڑھی اور اس کے مؤمن بیٹے کی درخواست پر اس کے لیے استغفار بھی کیا حالانکہ عبداللہ بن ابی نہ صرف منافق تھا بلکہ منافقوں کا سرکردہ تھا۔

لیکن آیت میں صریحاً منع کیا گیا کہ کسی منافق پر نماز مت پڑھو اور اس حکم میں نہایت تاکیدی لفظ اَبَدًا بھی ہے۔ لہٰذا یہ روایات صریح قرآن کے خلاف ہونے کی وجہ سے مسترد ہیں اور خود روایات تضادات سے پر ہیں۔ ملاحظہ ہو المیزان ۔

۲۔ وَّ لَا تَقُمۡ عَلٰی قَبۡرِہٖ: منافق کے دفن ہونے کے بعد اس کی قبر پر کھڑے نہ ہوں۔ اس امر سے اس لیے روکا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی مسلمان کی تدفین کے بعد اس کی قبر پر کھڑے ہوتے اور فرماتے تھے:

استغفروا لاخیکم واسئلوا لہ التثبت فانہ الآن یسئل ۔ (المنار ۱۰: ۵۷۳)

اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو اور ثابت قدمی کی دعا کرو چونکہ اس وقت اس سے سوال ہو رہا ہے۔

زیارۃ القبور: منافق کی قبر پر کھڑا ہونا، منع ہونے سے ثابت ہوا ہے۔ مؤمن کی قبر پر کھڑا ہونا سنت نبوی ہے خواہ دفن کے بعد ہو خواہ دوسرے اوقات میں ہو۔ اس کو صرف دفن کے بعد کے لیے محضوص گردانا خلاف ظاہر قرآن ہے۔ چنانچہ شیعہ سنی مصادر میں زیارۃ القبور کے عنوان سے متعدد احادیث منقول میں فرمایا:

نھیتکم عن ثلاث نھیتکم عن زیارۃ القبور اَلَا فزوروھا ۔۔۔۔ (الوسائل ۱۴: ۱۷۰۔ نسائی باب الاذن بذلک)

میں نے تم کو تین چیزوں سے روک دیا تھا۔ (ان میں سے ایک) قبروں کی زیارت تھی۔ اب قبروں کی زیارت کرو۔

دوسری حدیث میں فرمایا:

فانھا تذکرۃ الآخرۃ ۔۔۔۔ (مستدرک الوسائل ۲: ۳۶۲۔ نسائی باب الاذن)

قبروں کی زیارت آخرت کو یاد کرنے کا ذریعہ ہے۔

۳۔ اِنَّہُمۡ کَفَرُوۡا بِاللّٰہِ: یہ حکم اس لیے ہوا کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف کفر پر قائم ہیں۔ کافر کے لیے نہ نماز ہے نہ استغفار۔

۴۔ وَ مَا تُوۡا وَ ہُمۡ فٰسِقُوۡنَ: اور کفر کے ساتھ حالت فسق پر مر گئے ہیں۔ ان سے توبہ بھی واقع نہیں ہوئی۔

نماز جنازہ پڑھنا اور میت کی قبر پر بغرض دعا و زیارت کھڑا ہونا میت کے لیے عزت و تکریم ہے۔ منافق جو مسلمانوں کی صف میں داخل نہیں ہے، وہ عزت و تکریم کا مستحق نہیں ہے۔

اہم نکات

۱۔ مؤمن کی قبر پر کھڑے ہو کر اس کے لیے دعا کرنا سنت نبویؐ ہے۔


آیت 84