وَ مِمَّنۡ خَلَقۡنَاۤ اُمَّۃٌ یَّہۡدُوۡنَ بِالۡحَقِّ وَ بِہٖ یَعۡدِلُوۡنَ﴿۱۸۱﴾٪

۱۸۱۔اور جنہیں ہم نے پیدا کیا ہے ان میں ایک جماعت ایسی ہے جو حق کے مطابق ہدایت کرتی ہے اور اسی کے مطابق عدل کرتی ہے۔

181۔ تفسیر المنار میں حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا ہے : یہ امت 73 فرقوں میں بٹ جائے گی۔ سب جہنمی ہوں گے سوائے اس فرقے کے جس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ آئمہ اہل البیت علیہ السلام کی روایات میں اس فرقے کی نشاندہی کی گئی ہے۔

وَ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا سَنَسۡتَدۡرِجُہُمۡ مِّنۡ حَیۡثُ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۸۲﴾ۚۖ

۱۸۲۔اور جو ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں ہم انہیں بتدریج اس طرح گرفت میں لیں گے کہ انہیں خبر تک نہ ہو گی۔

وَ اُمۡلِیۡ لَہُمۡ ؕ۟ اِنَّ کَیۡدِیۡ مَتِیۡنٌ﴿۱۸۳﴾

۱۸۳۔ اور میں انہیں ڈھیل دوں گا، میری تدبیر یقینا نہایت مضبوط ہے۔

اَوَ لَمۡ یَتَفَکَّرُوۡا ٜ مَا بِصَاحِبِہِمۡ مِّنۡ جِنَّۃٍ ؕ اِنۡ ہُوَ اِلَّا نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۱۸۴﴾

۱۸۴۔کیا ان لوگوں نے غور نہیں کیا کہ ان کے ساتھی(محمدؐ) میں کسی قسم کا جنون نہیں ہے؟وہ تو بس صاف صاف تنبیہ کرنے والا ہے۔

184۔ عناد و دشمنی ہر قسم کے کمالات اور صحیح ادراک کے لیے مانع ہوتی ہے ورنہ رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت، اخلاق، فکری صلاحیت،امانت اور صداقت جسے وہ دن رات دیکھتے آئے تھے نیز آسمانوں اور زمین کی وحدت حکومت، انسان سمیت ساری مخلوقات خدا اور خود انسانوں کی موت ان سب پر صاف دل اور کھلے دماغ سے غور و فکر کرتے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کو جن زدہ سمجھتے اور قرآن پر ایمان نہ لاتے۔

بِصَاحِبِہِمۡ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ان کا ساتھی اس لیے کہا کہ رسول چالیس سال تک انہی کے درمیان رہے ہیں اور سب ان کے اخلاق، سیرت، فکری صلاحیت اور امانت و صداقت سب دیکھ چکے ہیں۔

اَوَ لَمۡ یَنۡظُرُوۡا فِیۡ مَلَکُوۡتِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ مِنۡ شَیۡءٍ ۙ وَّ اَنۡ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنَ قَدِ اقۡتَرَبَ اَجَلُہُمۡ ۚ فَبِاَیِّ حَدِیۡثٍۭ بَعۡدَہٗ یُؤۡمِنُوۡنَ﴿۱۸۵﴾

۱۸۵۔ کیا انہوں نے آسمانوں اور زمین کی سلطنت اور جو چیزیں اللہ نے پیدا کی ہیں ان میں غور نہیں کیا اور(یہ نہیں سوچا کہ) شاید ان کی موت کا وقت نزدیک ہو رہا ہو؟ آخر اس (قرآن) کے بعد وہ کس بات پر ایمان لائیں گے؟

185۔ یہ لوگ رسول اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تو مجنون کہتے ہیں، لیکن خود عقل و فکر سے کام نہیں لیتے ورنہ یہ لوگ اگر اللہ کی اس سلطنت و حکومت پر غور کرتے جو آسمانوں اور زمین پر قائم ہے اور اس کی مخلوقات میں غور و فکر کرتے تو انہیں رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تعلیمات کی حقانیت کا علم ہوتا کہ اللہ کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہو سکتا۔ کائنات کی وحدت، سلطنت کی وحدت، نظام کی وحدت، خالق کی وحدت پر دلالت کرتی ہے۔وہ دنیا کی اس ظاہری زندگی کے فریب میں بدمست ہیں، ورنہ یہ لوگ اگر اپنی موت کا تصور کرتے تو بھی از راہ احتیاط رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تعلیمات کو مسترد نہ کرتے۔ قرآن جیسے معجزے کو یہ نہیں مانتے تو وہ کون سی ایسی بات ہو سکتی ہے جس پر یہ ایمان لائیں۔

مَنۡ یُّضۡلِلِ اللّٰہُ فَلَا ہَادِیَ لَہٗ ؕ وَ یَذَرُہُمۡ فِیۡ طُغۡیَانِہِمۡ یَعۡمَہُوۡنَ﴿۱۸۶﴾

۱۸۶۔جسے اللہ گمراہ کرے کوئی اس کی ہدایت کرنے والا نہیں اور اللہ ایسے لوگوں کو ان کی اپنی سرکشی میں بھٹکتا ہوا چھوڑ دیتا ہے۔

یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ السَّاعَۃِ اَیَّانَ مُرۡسٰہَا ؕ قُلۡ اِنَّمَا عِلۡمُہَا عِنۡدَ رَبِّیۡ ۚ لَا یُجَلِّیۡہَا لِوَقۡتِہَاۤ اِلَّا ہُوَ ؕۘؔ ثَقُلَتۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ لَا تَاۡتِیۡکُمۡ اِلَّا بَغۡتَۃً ؕ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ کَاَنَّکَ حَفِیٌّ عَنۡہَا ؕ قُلۡ اِنَّمَا عِلۡمُہَا عِنۡدَ اللّٰہِ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۸۷﴾

۱۸۷۔یہ لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ قیامت واقع ہونے کا وقت کب ہے؟ کہدیجئے: اس کا علم صرف میرے رب کے پاس ہے، قیامت کے وقت کو اللہ کے سوا کوئی ظاہر نہیں کر سکتا، (قیامت کا واقع ہونا) آسمانوں اور زمین کا بڑا بھاری حادثہ ہو گا جو ناگہاں تم پر آ جائے گا، یہ آپ سے اس طرح پوچھتے ہیں گویا آپ اس کی کھوج میں ہوں، کہدیجئے: اس کا علم صرف اللہ کے پاس ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

187۔ تمام انبیاء اور تمام ادیان میں یہ بات مسلمہ ہے کہ قیامت برپا ہونے کے وقت کا علم صرف اللہ تعالی کے پاس ہے۔ چنانچہ انجیل متی 24 : 36 میں آیا ہے: اس دن اور اس گھڑی کی بات کوئی نہیں جانتا، نہ آسمان کے فرشتے اور نہ بیٹا، مگر صرف باپ۔

مشرکین مکہ یہود سے مل کر اسی لیے رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قیامت کے بارے میں پوچھنے آئے کہ کیا جواب دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں یہ آیت نازل ہوئی۔

قُلۡ لَّاۤ اَمۡلِکُ لِنَفۡسِیۡ نَفۡعًا وَّ لَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰہُ ؕ وَ لَوۡ کُنۡتُ اَعۡلَمُ الۡغَیۡبَ لَاسۡتَکۡثَرۡتُ مِنَ الۡخَیۡرِۚۖۛ وَ مَا مَسَّنِیَ السُّوۡٓءُ ۚۛ اِنۡ اَنَا اِلَّا نَذِیۡرٌ وَّ بَشِیۡرٌ لِّقَوۡمٍ یُّؤۡمِنُوۡنَ﴿۱۸۸﴾٪

۱۸۸۔کہدیجئے:میں خود بھی اپنے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں مگر اللہ جو چاہتا ہے (وہ ہوتا ہے) اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو بہت سے فائدے حاصل کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف بھی نہ پہنچتی، میں تو بس ایمان والوں کو تنبیہ کرنے اور بشارت دینے والا ہوں۔

188۔ مشیت و ارادہ خداوندی سب پر حاکم ہے تو نبی اور عام بشر میں کیا فرق ہے؟ جواب یہ ہے کہ نبی اور بشر میں فرق کا دار و مدار اسی مشیت و منشائے الٰہی پر موقوف ہے۔ مشیت کی بنیاد ظرفیت اور اہلیت پر ہے۔ یہی مشیت و ارادﮤ خداوندی رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قاب قوسین تک لے جاتا ہے اور ابولہب کو اسفل سافلین تک۔

غیب کی جو نفی کی گئی ہے وہ ذاتی علم غیب کی نفی ہے، مگر وہ علم غیب جو اللہ کی طرف سے عنایت ہوتا ہے اس کی نفی نہیں کی گئی، بلکہ دوسری آیات اسے ثابت کرتی ہیں۔

ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ جَعَلَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا لِیَسۡکُنَ اِلَیۡہَا ۚ فَلَمَّا تَغَشّٰہَا حَمَلَتۡ حَمۡلًا خَفِیۡفًا فَمَرَّتۡ بِہٖ ۚ فَلَمَّاۤ اَثۡقَلَتۡ دَّعَوَا اللّٰہَ رَبَّہُمَا لَئِنۡ اٰتَیۡتَنَا صَالِحًا لَّنَکُوۡنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیۡنَ﴿۱۸۹﴾

۱۸۹۔وہی تو ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ(انسان) اس سے سکون حاصل کرے پھر اس کے بعد جب مرد نے عورت کو ڈھانپ لیا (مقاربت کی) تو عورت کو ہلکا سا حمل ہو گیا جس کے ساتھ وہ چلتی پھرتی رہی، پھر جب وہ حمل بھاری ہوا تو دونوں (میاں بیوی) نے اپنے رب اللہ سے دعا کی کہ اگر تو نے ہمیں سالم بچہ دیا تو ہم ضرور تیرے شکر گزار ہوں گے۔

فَلَمَّاۤ اٰتٰہُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَہٗ شُرَکَآءَ فِیۡمَاۤ اٰتٰہُمَا ۚ فَتَعٰلَی اللّٰہُ عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ﴿۱۹۰﴾

۱۹۰۔پس جب اللہ نے انہیں سالم بچہ عطا کیا تو وہ دونوں اللہ کی اس عطا میں (دوسروں کو) اللہ کے شریک ٹھہرانے لگے، اللہ ان کی مشرکانہ باتوں سے بالاتر ہے۔

189۔ 190۔ پہلے انسان کی تخلیق کا ذکر فرمایا کہ اللہ ہی نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا، پھر اللہ ہی نے تمہارے سکون کے لیے اور نسل آدم کو آگے بڑھانے کے لیے جوڑا بھی بنایا، اس کے بعد جب نسل آدم آگے چلی تو انسان کی تخلیق میں مشرکانہ نظریات وجود میں آنے لگے۔

چنانچہ اس آیت میں مشرکین کی ایک جاہلانہ سوچ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ والدین زمانہ حمل میں تو ساری امیدیں اللہ سے وابستہ کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ہم کو صحیح سالم بچہ عنایت فرما۔ جب اللہ ان کو صحیح و سالم بچہ عنایت فرماتا ہے تو اس بچے کو عطائے خداوندی تصور کرکے اس کی بارگاہ میں شکر گزار ہونے کی بجائے وہ اسے غیر اللہ کی عنایت گرداننے لگتے ہیں۔ مثلا فلاں پیر نے یہ اولاد دی ہے یا فلاں دیوی اوتار یا فلاں بت یا ستارے کا عطیہ ہے۔

واضح رہے اگر یہ تصور کیا جائے کہ فلاں بزرگ کی دعا سے اللہ نے یہ بچہ عنایت فرمایا ہے تو یہ شرک نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ سے دعا تو عین توحید ہے یا کسی برگزیدہ ہستی کو وسیلہ بنا کر دعا کی جائے تو یہ عقیدہ بھی درست ہے کہ اس وسیلے کی وجہ سے میری دعا قبول ہوئی اور اللہ نے بچہ عنایت فرمایا۔