آیت 187
 

یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ السَّاعَۃِ اَیَّانَ مُرۡسٰہَا ؕ قُلۡ اِنَّمَا عِلۡمُہَا عِنۡدَ رَبِّیۡ ۚ لَا یُجَلِّیۡہَا لِوَقۡتِہَاۤ اِلَّا ہُوَ ؕۘؔ ثَقُلَتۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ لَا تَاۡتِیۡکُمۡ اِلَّا بَغۡتَۃً ؕ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ کَاَنَّکَ حَفِیٌّ عَنۡہَا ؕ قُلۡ اِنَّمَا عِلۡمُہَا عِنۡدَ اللّٰہِ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۸۷﴾

۱۸۷۔یہ لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ قیامت واقع ہونے کا وقت کب ہے؟ کہدیجئے: اس کا علم صرف میرے رب کے پاس ہے، قیامت کے وقت کو اللہ کے سوا کوئی ظاہر نہیں کر سکتا، (قیامت کا واقع ہونا) آسمانوں اور زمین کا بڑا بھاری حادثہ ہو گا جو ناگہاں تم پر آ جائے گا، یہ آپ سے اس طرح پوچھتے ہیں گویا آپ اس کی کھوج میں ہوں، کہدیجئے: اس کا علم صرف اللہ کے پاس ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

تشریح کلمات

مُرۡسٰہَا:

( ر س و ) رسا الشئی ۔ کسی چیز کے کسی جگہ ٹھہرنے کو کہتے ہیں۔ مرسی لنگر انداز ہونے کی جگہ۔

حَفِیٌّ:

( ح ف و ) الاحفاء کے معنی کسی چیز کے مانگنے میں اصرار کرنے یا کوئی حالت دریافت کرنے کے لیے بحث اور کاوش میں لگے رہنے کے ہیں۔

السَّاعَۃِ:

زمانہ کے ایک حصے کو کہتے ہیں۔ قیامت کے دن کو ساعت کہتے ہیں کیونکہ ایک عظیم حادثہ زمانے کے ایک مختصر وقت میں رونما ہو گا۔

تفسیر آیات

تفسیر قمی میں آیا ہے کہ قریش نے عاص بن وائل سہمی، نضر بن حارث اور عقبہ بن ابی معیط کو نجران بھیجا کہ وہ یہود کے علماء سے کچھ معلومات لے کر رسول اللہؐ سے سوال کریں۔ ان میں سے ایک سوال تھا کہ قیامت کب برپا ہو گی؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

۱۔ قُلۡ اِنَّمَا عِلۡمُہَا عِنۡدَ رَبِّیۡ: تمام انبیاء (ع) اور ادیان میں یہ بات ایک مسلمہ ہے کہ علم قیامت صرف اللہ کو حاصل ہے۔ اس علم میں کوئی نبی اور کوئی مقرب فرشتہ اللہ کے ساتھ شریک نہیں ہے۔ چنانچہ انجیل متی ۲۴: ۳۶ میں آیا ہے:

اس دن اور اس گھڑی کی بات کوئی نہیں جانتا، نہ آسمان کے فرشتے، نہ بیٹا، مگر صرف باپ۔

۲۔ ثَقُلَتۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ: یعنی قیامت کا واقعہ ایک سنگین واقعہ ہو گا۔ اس کی سنگینی کا اندازہ خود قرآن کریم کی مختلف آیات سے بھی ہوتا ہے۔ جیسے سورہ حج میں فرمایا:

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمۡ ۚ اِنَّ زَلۡزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیۡءٌ عَظِیۡمٌ یَوۡمَ تَرَوۡنَہَا تَذۡہَلُ کُلُّ مُرۡضِعَۃٍ عَمَّاۤ اَرۡضَعَتۡ وَ تَضَعُ کُلُّ ذَاتِ حَمۡلٍ حَمۡلَہَا وَ تَرَی النَّاسَ سُکٰرٰی وَ مَا ہُمۡ بِسُکٰرٰی وَ لٰکِنَّ عَذَابَ اللّٰہِ شَدِیۡدٌ (۲۲ حج: ۱۔ ۲)

اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو کیونکہ قیامت کا زلزلہ بڑی (خوفناک) چیز ہے۔ جس دن تم اسے دیکھو گے کہ ہر دودھ پلانے والی (ماں) اپنے شیر خوار کو بھول جائے گی اور تمام حاملہ عورتیں اپنا حمل گرا بیٹھیں گی اور تم لوگوں کو نشے کی حالت میں دیکھو گے حالانکہ وہ نشے میں نہ ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب بڑا شدید ہو گا۔

۳۔ لَا تَاۡتِیۡکُمۡ اِلَّا بَغۡتَۃً: قیامت کا واقعہ ایسا نہیں ہے کہ آنے کے قریب لوگوں کو اندازہ ہو جائے کہ بس آنے والی ہے بلکہ یہ ایک ایسا حادثہ ہو گا جیسے آج کل زلزلوں میں پیش آتا ہے یا آسمان سے کوئی بڑا دم دار ستارہ کرۂ ارض سے ٹکرائے گا تو ایک ہی لمحے میں زمین کا حلیہ بدل جائے گا۔ پہاڑ ریزہ ہو جائیں گے۔ وَّ بُسَّتِ الۡجِبَالُ بَسًّا فَکَانَتۡ ہَبَآءً مُّنۡۢبَثًّا (۵۶ واقعۃ: ۵۔ ۶)

۴۔ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ کَاَنَّکَ حَفِیٌّ عَنۡہَا: لوگ سوال اس طرح کرتے ہیں گویا کہ آپ اس بات کے کھوج میں ہوں کہ قیامت کب برپا ہونے والی ہے۔ جب کہ کوئی شخص خواہ وہ نبی مرسل ہو یا مقرب فرشتہ، اس بات کا کھوج لگا ہی نہیں سکتا۔

۵۔ قُلۡ اِنَّمَا عِلۡمُہَا عِنۡدَ اللّٰہِ: یہ وہ علم جو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔

اہم نکات

۱۔ قیامت کا حادثہ آسمانوں اور زمین کے لیے بھی قابل تحمل نہ ہو گا: ثَقُلَتۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۔

۲۔ قیامت کا برپا ہونا ایسا اچانک ہو گا کہ کسی تخمین میں یہ بات نہیں آ سکتی: لَا تَاۡتِیۡکُمۡ اِلَّا بَغۡتَۃً ۔


آیت 187