آیت 188
 

قُلۡ لَّاۤ اَمۡلِکُ لِنَفۡسِیۡ نَفۡعًا وَّ لَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰہُ ؕ وَ لَوۡ کُنۡتُ اَعۡلَمُ الۡغَیۡبَ لَاسۡتَکۡثَرۡتُ مِنَ الۡخَیۡرِۚۖۛ وَ مَا مَسَّنِیَ السُّوۡٓءُ ۚۛ اِنۡ اَنَا اِلَّا نَذِیۡرٌ وَّ بَشِیۡرٌ لِّقَوۡمٍ یُّؤۡمِنُوۡنَ﴿۱۸۸﴾٪

۱۸۸۔کہدیجئے:میں خود بھی اپنے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں مگر اللہ جو چاہتا ہے (وہ ہوتا ہے) اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو بہت سے فائدے حاصل کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف بھی نہ پہنچتی، میں تو بس ایمان والوں کو تنبیہ کرنے اور بشارت دینے والا ہوں۔

تفسیر آیات

جس معاشرے کی طرف رسولؐ مبعوث ہوئے تھے وہ مشرکانہ مزاج کا معاشرہ تھا۔ اس لیے لوگ دعوائے نبوت سے یہ خیال کر رہے تھے کہ یہ رسولؐ بھی کار خدائی میں شریک ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ چنانچہ گزشتہ انبیاء (ع) کے بارے میں ان کی امتوں نے یہی مشرکانہ نظریات قائم کیے تھے۔

اس لیے پیامبر توحیدؐ پر یہ آیت نازل ہوئی: کہدیجیے کہ میں خود بھی اپنے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں، جو اللہ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔ یعنی میں اللہ سے مستغنی نہیں ہوں، میرے اوپر بھی اللہ کی مشیت حاکم ہے اور جس مقدار کے نفع و نقصان کا اختیار رکھتا ہوں وہ بھی اللہ کی طرف سے ہے، از خود نہیں۔

یہاں شاید یہ سوال پیدا ہو کہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ رسولؐ بھی باقی انسانوں کی طرح اپنے نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے اور مشیت الٰہی بھی تو سب پر حاکم ہے؟

جواب یہ ہے کہ نبی اورعام بشر میں فرق کا دار و مدار اسی مشیت و منشا الٰہی پر ہے۔ اللہ کا ارادہ، اس کی منشا اور مشیت، اہلیت اور ظرفیت کے مطابق ہوتی ہے:

وَ تُعِزُّ مَنۡ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنۡ تَشَآءُ ۔۔۔۔ (۳ آل عمران: ۲۶ )

اور تو جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کر دیتا ہے۔۔۔۔

وَ اللّٰہُ یُؤۡتِیۡ مُلۡکَہٗ مَنۡ یَّشَآءُ ۔۔۔ (۲ بقرۃ:۲۴۷)

اور اللہ اپنی بادشاہی جسے چاہے عنایت کرے۔۔۔۔

نَرۡفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنۡ نَّشَآءُ ۔۔۔۔ (۶ انعام: ۸۳)

جس کے ہم چاہتے ہیں درجات بلند کرتے ہیں۔۔۔۔

اَللّٰہُ یَجۡتَبِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ۔۔۔۔ (۴۲ شوریٰ: ۱۳)

اللہ جسے چاہتا ہے اپنا برگزیدہ بنا لیتا ہے۔۔۔۔

درست ہے اللہ کی مشیت و ارادہ سب پر حاکم ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ اللہ کی یہی مشیت و ارادہ رسول اللہ (ص) کو قَابَ قَوۡسَیۡنِ (۵۳ نجم: ۹) تک لے جاتا ہے او ر ابولہب کو جہنم کے اَسۡفَلَ سٰفِلِیۡنَ (۹۵ تین: ۵) تک۔

رسول اکرمؐ امت توحید کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس کائنات پر خدائے واحد کی مشیت کار فرما ہے، باقی سب اس کی مشیت کے ذیل میں آتے ہیں۔

۱۔ وَ لَوۡ کُنۡتُ اَعۡلَمُ الۡغَیۡبَ: علم غیب بذات خود صرف اللہ جانتا اور غیر اللہ علم غیب اس وقت جان سکتا ہے جب اللہ تعلیم دے۔ اس ا ٓیت میں بذات خود علم غیب کی نفی ہے، مطلق علم غیب کی نفی نہیں ہے، جیساکہ دیگر آیات سے یہ بات واضح ہے۔ فرمایا:

عٰلِمُ الۡغَیۡبِ فَلَا یُظۡہِرُ عَلٰی غَیۡبِہٖۤ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارۡتَضٰی مِنۡ رَّسُوۡلٍ ۔۔۔ (۷۲ جن: ۲۶۔۲۷)

وہ غیب کا جانے والا ہے اور اپنا غیب کسی پر ظاہر نہیں کرتا سوائے اس رسول کے جسے اس نے برگزیدہ کیا ہو۔

۲۔ لَاسۡتَکۡثَرۡتُ مِنَ الۡخَیۡرِۚۖۛ: اگر میں غیب جانتا ہوتا تو کثرت سے الْخَيْرِ حاصل کر لیتا۔ اس جگہ الۡخَیۡرِ سے کیا مراد ہے؟ بعض کہتے ہیں الۡخَیۡرِ سے اعمال صالحہ مراد ہیں۔ بعض کے نزدیک الۡخَیۡرِ سے مال و دولت مراد ہے۔ یہ دونوں یقینا مراد نہیں ہو سکتے چونکہ نہ رسول کے اعمال صالحہ میں لا علمی کی وجہ سے کوئی کمی آ رہی تھی، نہ ہی مال و دولت کے آپؐ خواہشمند تھے کہ لا علمی کی وجہ سے حاصل نہ کر سکے ہوں۔

جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں اگلا جملہ وَ مَا مَسَّنِیَ السُّوۡٓءُ قرینہ بن سکتا ہے کہ الۡخَیۡرِ سے مراد وہ بات ہے جو السُّوۡٓءُ کے مقابلے میں ہے۔ یعنی اگر میں غیب کی ہر بات براہ راست جانتا ہوتا تو زندگی کی ہر بھلائی سے بہرہ ور ہوتا اور کسی قسم کی تکلیف اور اذیت اٹھانے کی نوبت نہ آتی۔ جب کہ میں اس زندگی میں اذیت اٹھاتا ہوں۔

ما اوذی نبی مثل ما اوذیت ۔ (بحار الانوار ۳۹: ۵۵)

کسی نبی کو اتنی اذیت نہیں دی گئی جتنی مجھے دی گئی ہے۔

اور دوسروں کے ساتھ تکلیف اٹھاتا ہوں اور بھوک اور پیاس سے دوچار ہوتا ہوں۔ حضرت علی علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں فرماتے ہیں:

خرج من الدنیا خمیصا ۔ (مستدرک الوسائل ۱۲: ۵۴)

رسولؐ اس دنیا سے بحالت گرسنگی کوچ کر گئے۔

( لم ار احدا فسر (الخیر) بمثل ما فسرت )

اہم نکات

۱۔ کائنات میں طاقت کا سرچشمہ صرف ذات الٰہی ہے: لَّاۤ اَمۡلِکُ لِنَفۡسِیۡ نَفۡعًا وَّ لَا ضَرًّا ۔۔۔۔

۲۔ علم سرچشمہ خیر ہوتا ہے: وَ لَوۡ کُنۡتُ اَعۡلَمُ الۡغَیۡبَ لَاسۡتَکۡثَرۡتُ مِنَ الۡخَیۡرِۚۖۛ ۔۔۔۔


آیت 188