آیات 182 - 183
 

وَ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا سَنَسۡتَدۡرِجُہُمۡ مِّنۡ حَیۡثُ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۸۲﴾ۚۖ

۱۸۲۔اور جو ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں ہم انہیں بتدریج اس طرح گرفت میں لیں گے کہ انہیں خبر تک نہ ہو گی۔

وَ اُمۡلِیۡ لَہُمۡ ؕ۟ اِنَّ کَیۡدِیۡ مَتِیۡنٌ﴿۱۸۳﴾

۱۸۳۔ اور میں انہیں ڈھیل دوں گا، میری تدبیر یقینا نہایت مضبوط ہے۔

تشریح کلمات

نستدرج:

( د ر ج ) الاستدراج درجہ بدرجہ آہستہ قدم بقدم کے معنوں میں ہے۔

کید:

( ک ی د ) خفیہ تدبیر کے معنوں میں، ایک قسم کی حیلہ جوئی کے ہے۔ یہ اچھے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور برے معنوں میں بھی۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا: پہلے بھی کئی بار اس بات کا ذکر ہو چکا ہے کہ جب کافر قابل ہدایت اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کا اہل نہیں رہتا تو اللہ اسے اپنی حالت پر چھوڑ دیتا ہے اور وہ کافر غیرشعوری طور پر ہلاکت کے نزدیک ہوتا جاتا ہے اور اس کے وبال میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ آل عمران آیت ۱۸۷۔

۲۔ وَ اُمۡلِیۡ لَہُمۡ: اللہ کی تدبیر اور اس کی چال کو کوئی توڑ نہیں سکتا: فَلِلّٰہِ الۡمَکۡرُ جَمِیۡعًا (۱۳ رعد: ۴۲) تمام تدبیریں اللہ کے پاس ہیں۔ اس کی تدبیر و چال کے مقابلے میں کوئی اور تدبیر یا چال کارآمد ہو نہیں سکتی۔

اللہ تعالیٰ کی طرف سے کافروں کے خلاف تدبیر کی ایک صورت یہ ہے کہ ان کو ڈھیل دی جائے۔ اس ڈھیل کو سطحی سوچ والے نعمت اور رحمت سمجھتے ہیں۔ الٰہی تدبیر میں یہ ڈھیل سب سے بڑی سزاہے۔ سب سے بڑی سزا اس طرح ہے کہ اللہ ڈھیل اس وقت دیتا ہے جب کسی سے ہاتھ اٹھا کر اس کو اپنے حال پر چھوڑنا ہو۔ جب اللہ کسی سے ہاتھ اٹھاتا ہے تو وہ اتھاہ گہرائی میں گر جاتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ کافروں کو ناز و نعمت میں دیکھ کر غافل انسان رشک کرتا ہے۔ جب کہ آگاہ انسان خوف کھاتا ہے: اِنَّ کَیۡدِیۡ مَتِیۡنٌ ۔


آیات 182 - 183